نواز شریف کی وطن واپسی ملک کو بحران سے نکالنے کا عزم

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد محمد نواز شریف چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں اور آتے ہی انھوں نے لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا پھر سے آغاز بھی کردیا ہے۔ یہ جلسہ اس لیے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ لاہور کو مسلم لیگ (ن) کی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور نواز شریف کے استقبال کے لیے منعقدہ اس جلسے میں نون لیگ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئی کہ ماضی میں اس کے کسی جلسے میں اتنے افراد کے جمع ہونے کی نظیر نہیں ملتی۔ نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم اور ایک بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ ملک کی بڑی اور اہم سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ان کی وطن واپسی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز دونوں واقعات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
مینارِ پاکستان میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے یہ کہہ کر بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہوگا کہ ریاستی اداروں، جماعتوں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، دنیا میں مقام حاصل کرنا چاہتے ہو تو مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کا حل یقینا اسی ایک جملے میں مضمر ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ملک کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے لیے مل کر کام کریں اور کچھ عرصے کے لیے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ایک طرف رکھ دیں۔ اس وقت ہمیں جن سنگین حالات کا سامنا ہے ان میں اگر سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے مابین کھینچا تانی ختم نہ ہوئی تو عام آدمی کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا جس سے ملک کے انتشار کا شکار ہونے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ پاکستان کسی بھی صورت میں مزید بگاڑ کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا جو اقتصادی اور سیاسی بحران پر قابو پانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔
اس موقع پر نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم 9 مئی والے نہیں، 28 مئی والے ہیں۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے سرخرو ہو کر چار سال بعد وطن واپس آیا ہوں۔ ملک میں ان دنوں زیر بحث سب سے اہم مسئلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انتخابات سے متعلق بہتر فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے، انتخابات سے متعلق میری ترجیح وہی ہے جو الیکشن کمیشن ٹھیک سمجھتا ہے۔ پاکستان میں اضطراب والے حالات ہیں جو پریشان کن ہیں، حالات ہم نے بگاڑے بھی خود ہی ہیں ٹھیک بھی خود ہی کرنے ہیں۔ بہت ہی اچھا ہوتا کہ آج 2017ءکے مقابلے میں حالات بہتر ہوتے، دکھ کی بات ہے کہ ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا گیا۔میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ جو ملک آئی ایم ایف کو بھی خدا حافظ کہہ چکا تھا وہ مسائل کا شکار ہے، وہ پاکستان جہاں لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی تھی اور علاج کی سہولت موجود تھی کیا وہ پاکستان آج نظر آتا ہے؟ نواز شریف نے مزید کہا کہ 2017ءمیں پاکستان میں روزگار مل رہا تھا اور علاج کی سہولت تھی، نوبت یہاں تک کیوں آئی؟
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نون لیگ کے قائد نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نجات دلانے کے لیے 9 نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔ ان کی طرف سے پیش کیے جانے والے اس ایجنڈے میں سرکاری اور انتظامی اخراجات میں کمی، آمدنی، محصولات میں اضافہ، ٹیکس کے نظام میں بنیادی اصلاحات، برآمدات میں اضافے کے لیے فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب، توانائی (بجلی و گیس) کی قیمتیں کم کرنا، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی انتظام کاری، نوجوانوں اور خواتین کے لیے روزگار کے مواقع، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انقلاب، اور نظام عدل وانصاف میں اصلاحات لانا شامل ہیں۔ سابق وزیراعظم کی طرف سے دیا جانے والا یہ ایجنڈا بہت اہم ہے کیونکہ اس میں ان تمام معاملات میں بہتری لانے کے لیے نشان دہی کردی گئی ہے جن کی وجہ سے ملک مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ وقت آنے پر وہ اس ایجنڈے کے کتنے نکات پر حقیقی طور پر عمل کرنے کے قابل ہو پائیں گے۔
گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے اس اہم ترین جلسے میں سابق وزیراعظم کا فلسطین کا ذکر کرنا یقینا لائق ستائش ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے کہا کہ میرے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالی فلسطین کی مدد کرے اور ان کو ظلم سے بچائے۔ فلسطین پر ظلم انسانیت کے خلاف ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جائے، وہ بھی سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ہم فلسطینیوں کے خلاف سازش کو قبول نہیں کریں گے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جلسہ گاہ میں آنے والے نون لیگ کے ارکان نے اپنے ہاتھوں میں کشمیر اور فلسطین کے پرچم بھی اٹھا رکھے تھے۔ کشمیر اور فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہر پاکستانی کو اپنی سیاسی و نظریاتی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرنا چاہیے اور اس معاملے میں سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو مکمل ہم آہنگی ظاہر کرنی چاہیے۔
یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم)کے صدر چودھری شجاعت حسین نے نوازشریف کی وطن واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ملک کو جس طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے، حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی مفاہمت کو فروغ دیا جائے اور تمام سیاستدان مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں ،امید ہے کہ وہ اب سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں گے ۔ اس وقت ملک کو قومی یکجہتی اور مفاہمت کی اشد ضرورت ہے۔چودھری شجاعت حسین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس وقت تمام سیاستدانوں کو ذاتی مفادات بھلا کر ملک کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ادھر، جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سماجی رابطے کے ذریعے ایکس پر نواز شریف کو وطن واپسی پر خوش آمدید کہتے ہوئے لکھا کہ کوئی بھی جبر و تسلط کسی محب وطن کو ملک آنے سے نہیں روک سکتا۔
سیاسی قیادت کو اگر اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ ان سب کو ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا تو یہ امر ملکی سیاست میں ایک نہایت خوشگوار تبدیلی کی طرف اشارہ کررہا ہے، اور اس تبدیلی کے بغیر پاکستان کے اقتصادی و انتظامی مسائل کو حل کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ نواز شریف کی وطن واپسی سے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے راستہ ہموار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک اس وقت جس طرح کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ان کا حل فراہم کرنا کسی نگران حکومت کے بس کی بات نہیں ہے اور جلد یا بدیر یہ ذمہ داری عوامی مینڈیٹ سے تشکیل پانے والی مستقل حکومت کو ہی اٹھانا ہوگی، لہٰذا الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ آئین کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد عام انتخابات کرانے کے لیے انتظامات کرے کیونکہ نگران حکومتوں کی وجہ سے مسائل بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں جن سے ریاست کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...