فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
اللہ رب العزت نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا۔اتنی نعمتیں دیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ان نعمتوں میں ایک بڑی نعمت روشن آنکھیں ہیں۔اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جو اس سے محروم ہو۔ ایک صدا ” آنکھ والو آنکھیں بڑی نعمت ہیں “ ہر شہر،قصبہ کی ہر گلی محلہ میں ہر ذی روح سنتا ہے۔یہ صدا ان افراد کی طرف سے بلند ہو تی ہے جو اس نعمت سے محروم اس دنیا میں آئے یا بعد میں کسی عارضہ کی وجہ سے اس نعمت کو کھو بیٹھے۔بد قسمتی یہ ہے کہ ملک عزیز میں ان افرادکا کوئی پرسان حال نہیں بلکہ ان کی اس معذوری کا نہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ کچھ بد بخت تحریروں میں اور ڈراموں میں اس سے گھٹیا مزاح تخلیق کرتے ہیں ۔گنتی کے چند باہمت افرد نے اس معذوری کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور وہ کچھ کر دکھایا جو آنکھ والے بھی نہ کر سکے۔بد قسمتی سے بصارت سے محروم معاشی طور پر پسماند ہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے زیادہ افراد کو معاشرہ گداگر بنا دیتا ہے۔ یہ صورت حال اہل اقتدار کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور مقام شرم بھی۔ اس میں شک نہیں کہ شعبہ صحت تباہی و بربادی کی حدوں کو پار کر گیا ہے۔اس بربادی کا مختصر تذکرہ راقم نے گزشتہ کالم میں بھی کیا تھا۔ صحت کے ہرشعبہ میں بہتری کی اشد ضرورت ہے لیکن شعبہ امراض چشم میں تو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کی طرف سے صرف بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین امراض چشم موجود ہیں ۔ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ایک آدھ ماہر امراض چشم ہوتا ہے ۔تحصیل کی سطح پر تویہ سہولت بالکل میسر نہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک عزیز میں لاکھوں افراد امرض چشم میں مبتلا ہیں۔ان امراض چشم میں سفید موتیا اور کالا موتیا دو بڑے عارضے ہیں جو بصارت ایسی بڑی نعمت سے محرومی کا سبب بن رہے ہیں ۔اگر بر وقت تشخیص اور علاج ہو جائے توان امراض میں مبتلا افراد کی دنیا روشن رہ سکتی ہے۔اس کے لیے جن سہولتوں کی ضرورت ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہیںاور نہ ہی عوام میں شعور ہے۔
ہوش اڑا دینے والی مہنگائی نے پاکستانیوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ایسے حالات میں علاج معالجہ کی ”عیاشی “ ہر کسی کے بس میں کہاں۔بھلا ہو درد دل رکھنے والے مخیر حضرات اور فلاحی تنطیموں کا جو ملک کے طول و عرض میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں اور فری آئی کیمپوں کی صورت میں عوام کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔ان میں سے المصطفیٰ ویلفئیرٹرسٹ آئی ہسپتال بھی شامل ہے۔ دیگر فلاحی کاموں اور خدمت خلق کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ امراض چشم میں مبتلا افراد کے لیے یہ ہسپتال بڑی نعمت ہے۔اس ہسپتال کا عملہ بڑا خوش اخلاق ہے ۔صاف ستھرے ماحول میں عزت نفس کو مجروح کیے بغیر بلا تفریق مذہب ،مسئلک ،رنگ و نسل علاج کی بہتریں سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔علاج کے کسی مرحلے پر کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ ایک خیراتی ہسپتال ہے ۔لاہور شہر کے وسط میں قائم جدید سہولیات اور مشینری کے ساتھ المصطفیٰ آئی ہسپتال کی خدمات کو بیان کرنے کے لیے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد اس مرکز سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔انسانیت کا درد رکھنے والے بانیان،معاونین اور منتطمین قابل ستائش اور قابل تقلید ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی جائیداد اور وسائل دکھی انسانیت کے لیے وقف کر دیے۔چند روز قبل امراض چشم میں مبتلا افراد کے علاج کے ساتھ ساتھ المصطفیٰ ٹرسٹ آئی ہسپتال نے عوام میں کالاموتیا کے حوالے سے بیداری شعور کے لیے ٹرسٹ کے چیئرمین جناب عبدالرزاق ساجد صاحب کی ہدایت پرگورنر ہاﺅس کے دربار ہال میں ایک زبردست سیمینار کا انعقاد کیا۔سیمینار میں صوبائی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم، وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر ،میڈیکل کالجز کے چانسلرز، ماہرین امراض چشم اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے مہمانان گرامی نے شرکت کی۔ماہر امراض چشم پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری اور معروف صحافی جناب محمد نواز کھرل نے نقابت کے فرائض سر انجام دیے۔ ہسپتال کے صدر اور معاون خالد حمید فضل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔محترمہ نصرت سلیم نے ہسپتال کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کی۔المصطفیٰ ٹرسٹ کے کنٹری ڈائریکٹر جناب تجمل گورمانی نے کلمات تشکر ادا کیے ۔ٹرسٹ کے چئیرمین جناب عبدالرزاق ساجد نے ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد اور مستقبل کے فلاحی منصوبوں کے بارے میں بتایا۔
ماہرین امراض چشم نے آنکھ کی ساخت ،امراض خصوصا کالا موتیا سے بچاﺅ اور علاج کے حوالے سے آسان الفاظ اور عام فہم انداز میں مفید گفتگو کی ۔حاضرین نے بھر توجہ اور دلچسپی سے تمام لیکچرز کو سنا۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے سیمینارز کا سلسلہ ملک کے ہر شہر میں ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میںآگاہی اور شعور بیدار ہو۔سیانے کہتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔اس حواے سے پرنٹ میڈیا میںمضامین اور کالم شائع کیے جائیں الیکٹرانک میڈیا میںخصوی پروگرام نشرکیے جائیں۔صرف سیاسی کچرا ہی موضوع نہیں ہونا چاہیے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں”سیاست “ کے سوا
صحت ،امراض اور ان سے بچاﺅ کے حوالے سے معلوماتی مواد نصاب کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔کب تک اور کتنی نسلوں کو ”مسٹر چپس “ ایسی بور کہانیاں پڑھاتے اور سناتے رہو گے۔
آنکھیں بڑی نعمت ہیں
Oct 23, 2023