علی اصغر ثمر کی ادبی خدمات


شذراتِ انجم....ڈاکٹر محمد وسیم انجم
drwaseemjum@gmail.com
علی اصغر ثمر راجپوتوں کی چھتیس مشہور گوتوں میں بھٹی گوت کے چشم و چراغ ہیں۔ بھٹی راجپوتوں کی سلطنت سالٹ رینج اور کشمیر پر مشتمل تھی اور ان کا دارالحکومت گجنی پور موجودہ راولپنڈی تھا۔ علی اصغر بھٹی 28اکتوبر 1954ءکو راولپنڈ ی میں پیدا ہوئے۔ چوہڑ ہڑپال راولپنڈی میں ساری زندگی گزار دی۔ آپ کی زندگی جہدِ مسلسل کی ایک لازوال داستان پیش کرتی ہے۔آپ صبر و استقامت کا پیکر ہیں۔ گفتگو میں شائستگی اور دھیمہ پن ”نرم دم گفتگو گرم دم جستجو“ کا حسین امتزاج اور عجز و انکساری کی ایک مثال ہیں۔ آپ کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ان کی رفیقہ¿ حیات عفت اصغر شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ دو صاحبزادگان اویس اصغر اور عمر اصغر میں بڑے فرزند ارجمند اویس اصغر وفاقی جامعہ اردو اسلام آباد کیمپس میں بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کے طالب علم رہے۔علی اصغر ثمر نصف صدی سے شعر و ادب کی دنیا میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی بزم احباب قلم 15 مئی 1973 ءسے قائم و دائم ہے۔ انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد میں ادبی انجمنوں کو بنیاد فراہم کی جس کا تذکرہ اس سال بزم احباب قلم پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں کیا گیا۔ اس تقریب میں پچاس سے زائد شعراءو ادباءکو ان کی خدمات پر ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس تقریب میں ملک بھر سے علمی و ادبی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔راولپنڈی اسلام آباد کی ادبی فضا میں ان ادبی تنظیموں کے ذریعے مشاعرے اور اجلاس منعقد ہوتے رہے جہاں شاعر اور ادیب ان محفلوں میں متعارف ہوتے تو وہاں شعر و ادب کے فروغ میں نمایاں ترقی ہوتی رہی۔
علی اصغر ثمر نے ”بزم احباب قلم“ کے تحت کتابوں کی تقریب پزیرائی اور مختلف موضوعات پر ادبی پروگراموں کے ساتھ مشاعرے بھی کرائے۔ اس بزم کے تحت ”ایک شام تین مہمان“ کا آغاز ہوا تو بزم کے پروگراموں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد حیثیت حاصل ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ علی اصغر ثمر کی پُرعزم وابستگی اور ان کے رفقاءکار کی بزم سے والہانہ شیفتگی ہے جب بھی راولپنڈی اسلام آباد کی ادبی تنظیموں اور رسائل پر تاریخ لکھی جائے گی تو ان کی ”بزم احباب قلم“ اور ماہنامہ ”صدرنگ“ کے بغیر مکمل نہیں ہو گی۔ علی اصغر ثمر تاریخ ساز رسالے ”نیرنگِ خیال“ میں مدیر سلطان رشک کے معاون بھی رہے اور 1976 ءمیں ماہنامہ ”پیام بر“ کا ایک شمارہ اور 1986 ءمیں ”صد رنگ“ کے ادبی سلسلہ میں دو شمارے نکالے۔ بعد ازیں ماہنامہ ”صدرنگ“ کا اسلام آباد سے ڈیکلریشن لے کر اس کا باقاعدہ آغاز جولائی 1995ءمیں کیا جو 2015 ءتک علی اصغر ثمر کی ادارت میں اُردو ادب کے افق پر جگمگاتا رہا۔ ”صدرنگ“ کی ادارت میں نامور ادباءو شعراءبھی شامل رہے۔ اس رسالے میں اردو ادب کی تمام اصناف سخن پر نامور ادباءو شعراءکی تحریروں کے ساتھ میرے مضامین، انٹرویوز اور کتابوں پر تبصرے بھی شائع ہوتے رہے۔ میری اولین کتب ”اقبال کا ذہنی و فنی ارتقائ“، ”اقبال کے افکار و نظریات“ اور ”شخصیت اقبال کا فن و ادب“ پر خاور اعجاز کا تبصرہ جلد اول شمارہ 11 میں منظرعام ہوا۔علی اصغر ثمر سے برادرانہ تعلقات اور ملاقاتوں کا لامتناعی سلسلہ عرصہ تیس سالوں پر محیط ہے۔ ایک ملاقات پر انہوں نے ناصر عرفات کے ساتھ میرا انٹرویو کیا جو ”صدرنگ“ کے شمارہ مارچ 2006 ءمیں شائع ہوا۔ یہ انٹرویو اور خاور اعجاز کا تبصرہ میری کتاب ”اقبال شناس“ میں محفوظ ہیں۔علی اصغر ثمرنے درویش صفت شاعر و ادیب اور سہ ماہی ”صراطِ ادب“ کے مدیر اعلیٰ صدیق فنکار کی شخصیت و فن پر ایک کتاب ”فن اور فنکار“ 1987 ءمیں مرتب کی۔ اس کتاب میں کرنل غلام سرور ستارہ امتیاز، ڈاکٹر رشید نثار، پروفیسر نجمی صدیقی، پروفیسر زہیر کنجاہی، علی محمد فرشی، انور قدوس سیمیں، حامد محمد کے ساتھ علی اصغر ثمر کا مضمون اور صدیق فنکار کے کلام کے نمونے شامل ہیں۔علی اصغر ثمر کو احبابِ قلم سے خصوصی محبت ہے انہوں نے بزم احباب قلم کے تحت مکتبہ احباب قلم پاکستان کے تحت کتب کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور اس مکتبہ کے تحت اپنی شاعری کا مجموعہ ”حال دل زار“ 2018 ءمیںشائع کیا۔ اس مجموعے کے دیباچے میں سرور انبالوی، ڈاکٹر رشید نثار، نسیم سحر، خاور اعجاز، بدر اشرف الدین شامی، سیف علی، سید عارف، نسیم اقبال ملک، آصف مغل کے مضامین اور سرور انبالوی، شوکت مہدی، کوثر ثمرین، سید قادر عتیق ہاشمی کی منظومات شامل ہیں۔”حالِ دل زار“ میں حمدیہ شاعری میں اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت کا اقرار ہے۔ نعتیہ شاعری میں حضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ثناءخوانی کے ساتھ اسلامی تاریخ کا پس منظر و پیش منظر بیان کیا گیا ہے۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے بعد نظموں کے منفرد موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ نظموں کے بعد غزلیں قدرے مختلف زاویے سے اپنا اسیر بناتی چلی جاتی ہیں۔ ان میں جمالیاتی پہلو بھی ہے اور اعلیٰ و ارفع مقصد بھی نمایاں ہے۔آخری قطعات میں شخصیات کا بھرپور خاکہ منظوم شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں ذوق شعری کا ہی نہیں بلکہ اس دور کے مشاعروں کے انداز اور روایت سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔”بزم احباب قلم“ ، ”مکتبہ احبابِ قلم“، ”صدرنگ“ اور ان کی کتب فروغ اردو کے ضمن میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اردو ادب اور صحافت کے طالب علم اور محققین ان سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ انشاءاﷲ۔

ای پیپر دی نیشن