نواز شریف   پاکستان آمد کا ایک سال 

سردار عبدالخالق وصی 

پاکستان کے گزشتہ چالیس پنتالیس سال کے سیاسی نشیب و فراز میں نواز شریف ایک سیاستدان ھی نہیں بلکہ اسوقت وہ قومی و عالمی سطح پر پاکستان کے ایک سٹیٹس مین، مدبر راھنما اور ریفارمر کے طور پر جانے و مانے جاتے ھیں۔ بظاھر وہ کسی جدی پشتی معروف سیاسی خاندان سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اپنی خدا داد صلاحیتوں،شبانہ روز محنت،سوچ و فکر سیاسی بصیرت اور پاکستان سے خصوصی کمٹمنٹ کے باعث تمام تر مشکلات اور انکے خلاف ھونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں اور آمرانہ و جابرانہ شب خون مارے جانے کے باوجود اللہ کے فضل و کرم سے انکا ستارہ افتخار پاکستان کے قرطاس سیاست پر نہ صرف تابدار و چمک دار رھا بلکہ بیرونی دنیا میں انکی عزت و احترام اور قومی وقار میں گراں قدر اضافہ ھوا۔سیاسی خاندانوں سے وابستہ ارباب سیاست کی اننگز بھی زیادہ سے ذیادہ ایک یا دو نسلوں تک نمایاں رھتی ھیں لیکن میاں محمد نواز شریف نہ صرف خود پانچ سال تک وزیر اعلیٰ پنجاب،تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ھوئے بلکہ انکے بھائی محمد شہباز شریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ اور تاریخ پنجاب کے طویل ترین عرصہ زائد از 11 سال تک وزیر اعلیٰ پنجاب اور دوسری بار پاکستان کے منتخب وزیراعظم منتخب ھوئے ھیں۔نواز شریف کے بھتیجے اور وزیراعظم شہباز شریف کے بیٹےحمزہ شہباز اور اب بیٹی محترمہ مریم نواز شریف صوبہ پنجاب کی تاریخ کی پہلی متحرک ترین خاتون وزیر اعلیٰ ھیں جنکا کام انکے اپنے والد اور چچا کے کام سے کہیں مساوی اور کہیں سبقت کے ساتھ جاری ھے۔ 
نواز شریف خود اور انکی شفقت و سیاست کے تابع انکا خاندان نہ صرف پاکستان کے اقتدار پر روشن ستارے مانند دکھ رھا ھے بلکہ انہوں نے سیاست میں شرافت اور وضع داری کی اقدار کو بھی بدرجہا اتم قائم رکھا۔
جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ طویل جلا وطنی، بیماریوں اور وطن عزیز پاکستان میں اپنے والدین کے جنازوں کو بھی کندھا دینے سے محروم رکھے گئے۔ اپنی شریک حیات کی مرض الموت میں دیکھ بحال و نگہداشت کے بجائے اپنی بیٹی سمیت نہ صرف پابند سلاسل رھے بلکہ ٹیلیفون پر انکی خیریت معلوم کرنے کی سہولت بھی نہ دی گئی۔
نواز شریف کو ان مشکلات و مصائب کا ھی سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت انصاف کے نام نہاد ججز سے ایک ایسے مقدمے جن میں انکا نام بھی نہیں تھا اس میں اپنے ھی بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے " جرم" میں سزا یاب کر کے اقتدار ،اپنی جماعت کی صدارت اور تا زیست سیاست میں حصہ لینے سے محروم کردیا گیا۔
 بقول منیر نیازی مرحوم 
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 
کے مصداق نواز شریف کی راہ پر خار ھی نہیں ھر بار نئے نئے سیاسی حادثات و واقعات سے بھرپور رھی۔
21 اکتوبر 2023 کو نواز شریف لندن میں چار سال کی طویل علالت و جلا وطنی کاٹنے کے بعد جب پاکستان تشریف لائے تو بلا شبہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اجتماع نے شہر لاھور کے دل مینار پاکستان کے پہلو میں انکا فقید المثال استقبال کیا جسکی نظیر ملنا مشکل ھے۔
 لاھور وہ شہر ھے جس نے قائدِ اعظم کی قیادت میں برصغیر میں ایک نئے ملک پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی جہاں آج مینار پاکستان ایستادہ ہے۔
عوام کا یہ عظیم اجتماع نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب لیکر آیا تھا عوام کو یہ یقین تھا کہ اب نواز شریف پاکستان کی قسمت بدلنے آیا ھے۔ عوام کا نواز شریف پر اعتماد کا یہ عالم رھا ھے کہ جب بھی نواز شریف حکومت پر شبخون مارا گیا عوام نے پہلے سے زیادہ اکثریت سے دوبارہ منتخب کیا، لیکن اس بار جو حالات تھے نواز شریف نے وہ پہلے ھی بھانپ لئے تھے۔قوم کو ایک مایوسی،غیر یقینی اور خراب ترین معاشی حالات کا سامنا تھا، پی ڈی ایم حکومت نے سیاست کی قربانی دیکر ملک کو ڈیفالٹ ھونے سے تو بچایا لیکن ملک کو مہنگائی اور غیر یقینی کے چنگل سے آزاد نہ کرا سکی اور نگران حکومت بھی تین مہینے کے بجائے زیادہ عرصہ تک براجمان رھی جس کا نقصان بھی مسلم لیگ ن کے کھاتے میں ھی گیا۔ ملک کی چوتھی بار کی وزارت عظمیٰ نواز شریف کی ضرورت تھی نہ خواھش، وہ اب پاکستان کو ایک مستحکم جمہوریت،مضبوط معیشت اور انصاف دینے اور طالع آزما حکمرانوں کے آگے کھڑی رھنے والی عدلیہ دینا چاھتے ھیں جس کا اعلان مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں 2018 میں بھی تھا اور 2023/24 میں بھی۔پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں یہ مشکل ترین ٹاسک ھے۔ پاکستان میں جمہوریت پر پے درپے حملوں نے ریاست کے تینوں ستونوں پارلیمنٹ،انتظامیہ اور عدلیہ کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ھے انتظامیہ کے مضبوط بازو جو معروف معنوں میں Establishment کہلاتی ھے اس میں بھی پہلی بار تطہیر و احتساب کا عمل شروع ھے جو پاکستان جیسے مخصوص سٹریٹجک ملک میں پہلی بار دیکھنے کو ملا ھے۔
عدلیہ نے طویل عرصے سے انصاف کے بجائے دیگر قوتوں کے ساتھ ملکر شراکت اقتدار میں حصہ داری شروع کی ھوئی ھے انہوں نے بظاھر تو انصاف کے چوغے زیب تن کر رکھے ھوتے ھیں لیکن وہ ان چوغوں کی نمائش میں عدل گستری کے بجائے جدل گستری میں مصروف کار رھتے ھیں جب چائیں آئین کی تشریح کے نام پر نیا آئین لکھ ڈالیں اور جب چائیں منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیں اور جب چائیں قانون نہ بھی ھو بلیک ڈکشنریوں اور افسانوی ناولز سے سسلین مافیا اور گاڈ فادر کے جملے استعمال کر کے پارلیمنٹ اور قائد ایوان کی تحقیر کریں جسے چائیں زبع کردیں اور جس بدقماش کو چائیں صادق و آمین کا خطاب دے دے دیں۔ اس عدلیہ کی تطہیر بھی اب پارلیمنٹ کی بنیادی ذمہ داری ھے۔
اب نواز شریف کا مقام سیاست سے زیادہ مدبر اور مدبر سے بھی زیادہ ریفارمز (مصلح آئین و عدل) کا ھے۔
عام لوگوں کو نواز شریف خاموش، لا تعلق اور سیاست میں عدم دلچسپ نظر آتے ھیں لیکن نواز شریف نے جب سے یہ چپ سادھ رکھی ھے اسکے پیچھے انکی وہ Wisdom اور بصیرت ھے جس سے قوموں کی تعمیر دشمن کی تسخیر اور جمہوری اداروں کی اصلاح و تشکیل جدید پوشیدہ ھے۔
پاکستان اسوقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رھا ھے اڑوس پڑوس میں چین کے سوا کہیں سے بھی خوشگوار آب و ھوا کا جھونکا محدود تر ھے ھمارے ھمدرد اور بہی خواہ بھی ھماری صورت حال سے پریشان اور فکرمند ھیں وہ سہارا بننے کو تو تیار ھیں لیکن ھماری اندرونی سیاسی کشیدگی انہیں دل کھول کر مدد کرنے میں حائل ھے 
پی ڈی ایم حکومت نے بلا شبہ اپنی سیاست کی قربانی دیکر پاکستان کو ڈیفالٹ ھونے سے بچایا لیکن وہ حکومت عوام کی توقعات کے مطابق عوام کو ریلیف نہیں دے سکی اور نہ ھی اس سے زیادہ اسکے بس میں کچھ تھا۔
موجودہ وفاقی حکومت کے پاس بھی جادو کی کوئی چھڑی ھے نہ الہ دین کا چراغ کہ وہ رگڑے تو مہنگائی کا جن بوتل میں بند ھو جائے اس کے لئے جو کچھ ممکن ھے کیا جا رھا ھے مہنگائی شرح بھی سنگل ڈیجٹ کی طرف نیچے ضرور آ رھی ھے لیکن ملک میں دھشت گردی، سیاسی عدم استحکام جس باعث جب بھی کوئی اعلیٰ بیرونی شخصیت کا دورہ ھو دشمنان پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے منفی سرگرمیوں سے روڑے اٹکانے شروع ھو جاتے ھیں،بے روزگاری، ڈالر کی بالائی سطح میں استحکام، آئی ایم ایف کی ناروا پابندیوں کی صورت حال عام آدمی کے دکھ کا مداوا قدرے کم کر رھی ھے۔
نواز شریف کی ترجیحات یہی ھیں کہ عوام کے درپیش مشکلات و مسائل میں ریلیف کے لئے دور رس اقدامات کئے جائیں تاکہ پاکستان عدم استحکام سے نکل کر Charter of Stability کی طرف رواں دواں ھو جائے اگرچہ پاکستان کے دشمن اور CPEC مخالفین کے ھاتھوں میں انتہائی معزرت کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ عمران خان کی صورت میں ایک ناسور انکے ھاتھوں میں گزشتہ دس سالوں سے کھیل رھا ھے اور پاکستان کے قومی مفادات سے قطعاً نابلد من چلوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی اسے پاکستان کے خلاف تماشہ لگانے اور پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں میسر ھے۔ لیکن یقین ھے کڑی کا یہ ابال اب جلد ھی ٹھنڈا ھونے کو ھے SCO کا پاکستان میں انعقاد پاکستان کی معیشت کو اٹھان دینے میں ممد و معاون ھوگا اس کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد بہت بڑی پیش رفت ھے اور اس میں پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں کا حکومت سے تعاون دور رس نتائج کا حامل ھوگا امید ھے اب مجوزہ آئینی ترامیم کا اونٹ بھی درست سمت کروٹ لے گا اور پاکستان کی پارلیمان اور دیگر اداروں میں توازن طاقت اور تال میل میں بہتری سے پاکستان صحیح سمت میں محو پرواز ھوگا یہی نواز شریف کا خواب بھی ھے اور اس خواب کی تعبیر بھی اور یہی نواز شریف کی سال بھر کی منصوبہ بندی ھے جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں محترمہ مریم نواز شریف کی قیادت میں مختصر عرصے میں ایک واضح تبدیلی دکھا دی ھے جس سے عوام کی تسکین و آسائش میں اضافہ نظر آرھا ھے اور ان شا اللہ پورے پاکستان میں اس کے ثمرات بھی جلد نظر آنا شروع ھو جائیں گے۔
پاکستان ایک بار سیاسی و معاشی استحکام کی راہ پر چل پڑے اور اسکو استحکام کی پٹڑی سے اتارنے والے جن بوتل میں بند ھو جائیں تو پاکستان ترقی و خوشحالی پر بہت جلد گامزن ھوجائے۔نواز شریف کا یہی ایجنڈا اور یہی منصوبہ بندی ھے۔

سردار عبدالخالق وصی

ای پیپر دی نیشن