قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد کا کچھ تو خیال کریں

نقطہ نظر         
چودھری ریاض مسعود
۔Ch.Riaz Masood@gmail.com
    ُٓبانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم ؒ نے قیام پاکستان کے بعد مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر اس وطن کے حصول کے لیے برِصغیر کے مسلمانوں نے عظیم جانی و مالی قربانیاں دی ہیں اور یہ انشاءاللہ قائم و دائم رہے گا اس وطن کی ترقی ، خوشحالی اور مضبوطی کے لیے ہر ایک کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کا کام پوری محنت خلوص اور دیانتداری کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے عطاءکردہ انسانی اور قدرتی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ، لوگوں کو سماجی انصاف دینے، بنیادی حقوق کی فراہمی اور ہر ایک کو ترقی کے مساوی مواقع دینا ہونگے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ حضرت قائدِ اعظمؒ نے مالی مشکلات میں گھر ے اس نوزائید ہ ملک کو چلانے اور اس کی معشیت کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے ۔سٹیٹ بنک آف پاکستان کو فعال بنانے ، معاشی اور انتظامی امور کو بہتر بنانے، اور زرعی و صنعتی ترقی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنے کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دیں۔ اگر ہم قائدِ اعظمؒ کے اصولوں پر عمل کرتے توہم نہ کسی کے آگے کشکول پھیلاتے اور نہ ہی آج ہم 74ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبے ہوتے ۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے جو قرضے لیتے ہیں اس پر بھی "خوشی کے شادیانے "بجاتے ہیں اور اسے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی "کامیاب معاشی حکمت عملی" بھی قرار دیتے ہیں۔ کیا ہمارے حکمرانوںنے کبھی عوام کو یہ بتایا ہے کہ آخر ان بھاری قرضوں کو کب اور کس طرح ادا کرناہے ؟ ہماری معیشت میں یہ بھی سکت نہیں ہے کہ ہم ان قرضوں پر واجب الادا سالانہ سود ساڑھے نو ارب روپے ہی ادا کرسکیں ۔ ہم توسود در سود کے چکروں میں جھکڑے ہوئے ہیں۔1958ءسے اب تک کے 66سالوں میں ہمارے ہر حکمران نے آئی ایم ایف، عالمی بنک اور دوست ممالک سے قرضے حاصل کرنے میں کبھی ہیچکچاہٹ محسوس نہیں کی بلکہ یہ اب ہماری عادت پکی ہو چکی ہے کہ اپنے وسائل کو صیح معنوں میں استعمال نہ کرو اور مانگے تانگے کے قرضوں سے ملکی معیشت چلاو¿ ۔ ایک جائز ے کے مطابق ہم آئی پی پیز سے سخت ترین شرائط پر بجلی تو خرید لیتے ہیں لیکن پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کی بجائے تقریباً 75ارب روپے کا پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ان آئی پی پیز میں ہمارے موجودہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے سرمایہ کا ر بھی شامل ہیں ۔ کیا ہماری حکومت نے ان "پیارے راج دلارے آئی پی پیز کو قائل کرنے کی بھی کوشیشیں کی ہیں کو وہ بجلی کی قیمتیں مناسب حد تک کم کریں؟ غیر ملکی IPPسے مذاکرات کرنے کی بجائے پہلے"اپنوں کو راضی"کرنے سے یقینا وہ بھی مان ہی جائیں گے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت پاکستان میں جو جمہوری ، سیاسی ، معاشی معاشرتی، مالیاتی اور انتظامی بحران پر پھیلائے ہوئے ہیں ۔اس کی اصل وجہ ہمارے حکمرانوں کا قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد سے صریحاً انحراف ہی ہے کیوں کہ 77سال گزرنے کے باوجود بھی ہم ملک میں نہ ہی اسلامی نظام کا نفاذ کر سکے ہیں اور نہ ہی اپنے جمہوری اداروں اور روایات کو پروان چڑھا سکے ہیں ۔ سستے اور فوری عدل و انصاف کی فراہمی ، مساوات اور بنیادی حقوق کا مسئلہ ہو یا لوگوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع ، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے ہمارے سیاست دانوں کے درمیان اقتدار کے لیے شروع ہونے والی جنگ نے ملک بھر میں انتشار اور بگاڑ پیدا کردیا ہے ہمارے معاشرے میں باہمی احترام، صبر، برداشت، احساس ، رواداری ، باہمی اتفاق و اتحاد، بھائی چارہ ، اخوت اور محبت کا فقدان پروان چڑھ رہا ہے امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، جرائم کی رفتار میں روز بروز اضافے اور باہمی منافرت کی وجہ "طاقت ورمافیا "کو کُھل کھیلنے"کا موقع ملاہے ۔صوبائی تعصب ، لسانی تعصب اور سیاسی تعصب نے ملک دشمن طاقتوں اور دہشت گردوں کی مذموم سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری مسلح افواج نے ایسے عناصر کا سر کچل کر رکھ دیا ہے لیکن ہمارے باہمی اختلافات نے جہاں ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے وہاں جمہوریت بھی صحیح معنوں پروان نہیں چڑھ سکی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سب سیاست دان اپنے آپ کو "جمہورت کا چمپین" ہی سمجھتے ہیں حالانکہ ان جماعتوں کے اندر "ماسوائے جماعت اسلامی"کے جمہوریت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ ہمارے یہ سیاست دان جب اقتدا ر میں آتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے مخالفین کوکھڈے لائن لگانے کے لیے ہر غیر جمہوری حربہ استعمال کرتے ہیں اور ہمیشہ جمہوریت کے بنیادی ستون بلدیاتی اداروں"پر کاٹھی"ڈالنے کی کوشیشں کرتے ہیں۔ ان کے غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے ہمارے ہاں بلدیاتی نظام"پنپ ہی نہیں سکا ہے ویسے تو اب عرصہ دراز سے ان اداروں کی عملاً "بساط ہی لپیٹی "جا چکی ہے ۔ حیران کن اور افسوس ناک بات یہ بھی کہ ہر "آنے والی حکومت"ہمیشہ جانے والی حکومت کے منصوبوں کو ٹھپ کردیتی ہے۔ اور کچھ عرصے پر ان منصوبوں کو نئے اضافی فنڈ کے ساتھ دوبارہ شروع کردیتی اور اس پر بڑے فخریہ انداز میں اپنی تختیاں لگا دیتی ہے۔ ہمارے عالی دماغ"مالیاتی اور معاشی امور کے ماہرین اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری ، غربت اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ عوام بجلی ، گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں ، ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح ، مکانا ت کے آئے روز بڑھتے ہوئے اضافے۔ عام ادویات خاص کر جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے تنگ آچکے ہیں لیکن ہمارے حکمران نہ جانے کیوں 44سالوں میں پہلی مرتبہ مہنگائی میں ریکارڈ کمی کے دعوے کر رہے ہیں ذرا یہ خود بازار میں جاکر خریداری کریں تو انہیں "چھٹی کا دودھ" یاد آجائے گا" اور" آٹے دال کا بھاو¿" بھی معلوم ہو جائے گا۔ حکومت تو عوام کے مسائل کو حل کرنے کے صرف دعوے ہی کررہی ہیں اور انہیں نابینا افراد کے مظاہروں اور ان پر ہونے والے پولیس تشدد ،2.5 کروڑ بچوں کے سکولوں میں داخل نہ ہونے ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے ، امن و امان کی خراب صورتحال اور جرائم کی رفتار مسلسل بڑ ھنے، فوری انصاف تک رسائی اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ، زرعی اور صنعتی شعبوں کی تباہی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ حکومت سرکاری محکموں اور اداروں کو ضم کرنے یا ختم کر کے بے روزگاری میں اضافے کی مرتکب ہورہی ہے اس سے نچلے درجے کے ہزاروں ملازمین متاثر ہورہے ہیں جبکہ بیورو کریسی کی ہمیشہ کی طرح "موجیں ہی موجیں"ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے خسارے پر جانے والے بڑے بڑے قومی اداروں سے نج کاری کے ذریعے جان چھڑانا چاہتے ہیں حالانکہ جامع منصوبہ بندی کر کے ہم اپنے ان اہم اداروں کو با آسانی بحال کر سکتے ہیں پاکستان کا عالمی سطح پر جھنڈا بلند کرنے والی پی آئی اے ہو یا انجینیرنگ انڈسٹری کا بنیادی ستون پاکستان اسٹیل ملز ، مسافروں اور سامان کی تیز رفتار نقل و حمل کرنے والی پاکستان ریلویز کی سابقہ کارکردگی سے کون نگاہیںپھیر سکتا ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی ، پاسکو، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن ، ریڈیو پاکستان پی ٹی وی اور دیگر قومی ادارے حکمرانوں کی خصوصی توجہ چاہتے ہیں المیہ یہ کہ ہم نے ملک کے سب سے بڑے تعمیراتی سرکاری ادارے پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کو پلک جھپکتے میں بند کر کے ہزاروں ملازمین کو بے روزگارکر دیا ۔ یہ ایسا قومی ادارہ ہے کہ جس سے اپنے قیام سے لے کر اب تک ملک میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے جبکہ ہمارے سیاستدانوں کے اپنے شروع کیے گئے منصوبے خوشحال پاکستان پروگرام ، پیپلزور کس پروگرام ، رورل ڈیویلپمنٹ پروگرام، وزیر اعظم خصوصی پروگرام اور دیگر اسی طرح کے پروگرام فرضی کاروائیوں اور اعدادوشمار سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ ہمارا ہر حکمران کوئی نہ کوئی نیا تجربہ ضرور کرتا ہے کوئی بڑی گاڑیوں کو سستے داموں فروخت کر کے نئی چھوٹی گاڑیاںخرید کرتا ہے۔ کوئی وزیرِاعظم ہاو¿س کی پروٹوکول گاڑیا ں اور بھینسیں بیچ دیتا ہے کوئی اراکین پارلیمنٹ پر ترقیاتی فنڈز کی مد میں اربوں روپے نچھاور کر دیتا ہے ۔تو کوئی نئے نئے ادارے اپنے حامیوں کو وہاں تعینات کر دیتا ہے ۔ اور کوئی حکمران ، وزراءمشیروں ، ترجمانوں اور مہربانوں کی تعداد بڑھا کر انہیں بھاری معاوضے اور مراعات دے کر قومی خزانے سے 
خوب انصاف کرتا ہے اگر ہم نے ملک کو بحران سے نکالنا ہے تو ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنے "طورطریقے "بدلنا ہونگے ۔ اس ملک کی فلاح و ترقی کے لیے حکمرانوں کو اپوزیشن کے ساتھ محاذآرائی ختم کر کے خود اگے بڑھ کر اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ اور ملک کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے باہمی مشاروت سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اس میں حکمرانوں، اپوزیشن اور عوام کا فائدہ بھی ہے اور ملک کی خوشحالی اور مضبوطی بھی ممکن ہے ۔اس بات پر سب متفق ہیں کہ جس ملک کے پاس سونے ، تانبے ، کوئلے، نایاب پتھروں اور دوسری قیمتی معدنیات کے بیش بہا خزانے ہوں وہ کبھی پسمانہ اور مقروض نہیں ہوسکتا۔ اسی تناظر میںنجانے ہم کب اپنی کوتاہیوں ، کمز وریوں اور غلطیوں کا احساس کر کے اس کا ازالہ کریں گے´ ؟ قوم حکمرانوں سے اس سوال کا فوری جواب چاہتی ہے۔ 
       
                                    

ای پیپر دی نیشن

 ارضِ مقّدس ؛فلسطین کی خوشبو

بشیر قمر صاحب نیویارک میں عرض دراز سے مقیم ہیں۔ آپ پاکستانیوں کے سر کا تاج ہیں۔ مقبول خاص و عام ہیں۔ صحافتی اور سماجی خدمات ...