طوفان الاقصٰی  دنیا کے دہرے معیارات کو عریاں کر گیا

Oct 23, 2024

ڈاکٹر امتیاز علی

ڈاکٹر امتیاز علی

drimtiazali@hotmail.com 
    7اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حماس (فلسطین کی آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی مزاحمتی تنظیم) کے حملے کے بعد جس میں 1139 اسرائیلی جاں بحق ہوئے اور 250 اسرائیلیوں کو اغوا کیا گیا تا کہ ان کے بدلے میں معصوم اور بے گناہ قید ہونے والے فلسطینیوں کو رہائی دلوائی جاسکے، (یاد رہے کہ اب تک ان اسرائیلی اغوا ہونے والوں میں سے 140 افراد رہا اور ان کے بدلے 154 فلسطینی قیدی رہائی یا چکے ہیں۔) ایک سال گزرنے کے باوجود اسرائیل اپنے حامی ممالک امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کے تعاون سے فلسطین اور اب لبنان میں تنگی جارحیت کا ارتکاب کرتا چلا آ رہا ہے۔ اور کسی بھی صورت جنگ بندی پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ اب تک کے اعداد و شمار اور ایک محتاط اندازے کے مطابق بیالیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہیں۔ غزہ کے سترہ لاکھ سے زیادہ افراد کو جبری نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔ اور غزہ کی ستر سے اسی فیصد عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لبنان میں بھی دو ہز ار مسلمان شہید اور دس ہزار افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد درجنوں میں بتائی جا رہی ہے۔ 
اس ساری جنگی صورتحال میں ظلم و جبر اور بربریت کی انتہا یہ ہے کہ غزہ کے شہریوں کو بجلی، پانی، غذا اور علاج معالجے کی سہولتوں سے مکمل محروم کر دیا گیا ہے۔ شہریوں کو قحط اور غذائی قلت میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نسل کشی (Genocide) کی جارہی ہے اور حتیٰ کہ ان مظلوم شہریوں تک پہنچنے والی امداد کو بھی کافی عرصے تک مصر کے بارڈر پر روکا گیا ہے۔
 جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد یہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا المیہ بن کر سامنے آیا ہے۔ موجودہ دنیا نے اس سے بڑا ظلم شاید ہی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ اسرائیلی حملوں میں سب سے زیادہ شہید ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسرائیلی بربریت نے جینوا کنونشن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں حتی کہ پناہ گزین کیمپوں تک کو نشانہ بنایا ہے اورآگ اور خون کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ 
افسوس کا مقام یہ ہے کہ اقوام متحدہ اورOIC (57 اسلامی ملکوں کی عالمی تنظیم) بھی اس ظلم و بربریت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ آنحضرت نے جنگوں کے دوران بھی اپنی فوج کو ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان اس ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے رہے ہیں۔
اس ضابطہ اخلاق کے مطابق مسلمان فوجیوں کو یہ حکم تھا کہ وہ عورتوں، بچوں، ضعیف اور بیمار افراد کو قتل نہیں کریں گے۔ درختوں، فصلوں، جانوروں اور عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے علاج گاہوں، درسگاہوں اور عبادت گاہوں کا احترام کریں گے۔ مبلغوں اور مذہبی پیشواو¿ں کو اگر وہ جنگ میں شامل نہیں ہیں تو ہلاک نہیں کریں گے۔ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہیں کریں گے۔ زندہ جلانے اور لاشوں کی بے حرمتی سے سختی سے پرہیز کریں گے۔ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاو¿ اور رحمدلانہ سلوک کریں گے۔ جنگ کے دوران کے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ لوٹ مار، مالِ غنیمت میں خیانت اور بزدلی سے بچیں گے۔ مگر آج دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اسرائیل نے نہ صرف اسلام کے دیے ہوئے انسانیت کے ضابطوں کو پامال کیا بلکہ جینوا کنونش (دوسری جنگ عظیم کے بعد جنگوں کے حوالے سے طے ہونے والے اصول و ضوابط) پر بھی عمل نہیں کیا کہ جس کے تحت سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، خواتین، بچوں، ضعیفوں،بیماروں اور قیدیوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔ 
اس ساری صورتحال میں ایک مرتبہ پھر یہ بات عیاں ہے کہ دنیا کو اسلام کے عادلانہ، منصفانہ اور رحمدلانہ نظام کی ضرورت عالمی امن کے لیے آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے
آج جہاں 57 آزاد اسلامی ممالک اور پاکستان جیسی دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بھی اس ظلم و بربریت کو روکنے حتی کہ اس ظلم کے خلاف مو¿ثر احتجاج کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ وہاں حماس کے راہنما اسمٰعیل ہنیہ اور حزب اللہ لبنان کے راہنما شیخ حسن نصر اللہ کی عظیم شہادت نے دنیا بھر کے زندہ ضمیر انسانوں کو جس میں بے شمار یورپی ممالک کے طلبا و طالبات اور جنوبی افریقہ بحیثیت ملک سر فہرست نظر آتے ہیں۔ یہ پیغام دیا ہے کہ 
    آج بھی یزیدیت کے خلاف حسینیت زندہ ہے۔
 آج بھی دنیا ظلم و جبر اور نا انصافی سے بھری پڑی ہے۔آج بھی حجتہ الوداع کے موقع پر رحمت اللعالمین حضرت محمد? کی طرف سے انسانیت کو دیا گیا احترام آدمیت کا چارٹر نوحہ کناں ہے۔
شیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
آج پھر تاریخ ایک اور خالد بن ولید، حسین ابن علی، محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے صاحب کردار افراد کی منتظر ہے۔ جو اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، بھارت اور اس کے حواریوں کے ظلم و ستم پر بندھ باندھ سکیں اور دنیا کو ایک مرتبہ پھر اسلام کے عادلانہ، منصفانہ اور رحمدلانہ نظام سے روشناس کرا سکیں۔
قرآن پاک کی سورہ النساءآیت نمبر 75 میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں 
”اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مدد گار مقرر فرما۔“
 اسی طرح سورة التوبہ آیت نمبر 24 میں فرمایا گیا ہے کہ ''آپ کہہ دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں،تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کھائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو۔ اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اسکی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
    آج پوری دنیا فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل پیش کرتی ہے۔ جبکہ بانی ئپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست اور عرب دنیا کے دل میں خنجر گھو پینے کے مترادف قرار دیا۔
 12 اکتوبر 1945 ءکو قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا
Every man and woman of the Muslim World will die before Jewry seizes Jesusalem. I hope the Jews will not succeed in their nefarious design and I wish Britain & America should keep their hand off & then I will see how the jews conquer Jesusalem.
آج دنیا کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ عالمی امن اور مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے اسرائیل کی نا جائز ریاست کو ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ اسرائیلی ریاست کی تلوار عالمی امن پر خطرے کے طور پر لٹکتی رہے گی۔ اور مسلم دنیا کے لیے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یہ پیغام ہمیشہ مشعل راہ رہنا چاہیے کہ
    تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے 
    ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
مسلمان ممالک کو عالمی امن قائم رکھنے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے علمی میدان اور جنگی ٹیکنا لوجی میں مہارت اور ترقی کے ساتھ ساتھ معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کی تجویز کے مطابق نیٹو کی کی طرز علیحدہ اور متحدہ اسلامی فوجی محاذ بنانا پڑے گا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
    ”تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لیے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو تا کہ تم اس (جنگی تیاری سے خدا کے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کر سکو اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے گا۔ اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ (سور? الانفال آیت نمبر 60)

مزیدخبریں