عوام کو اب فزیکلی باہر نکلنا ہوگا‘ وکلا تحریک کا ساتھ دیں گے‘ علی امین گنڈاپور
خود کارکنوں کو سڑک پر بے یارو مددگار چھوڑ کر منہ چھپائے بھاگ کر خیبر پی کے ہاﺅس میں پناہ لینے والے بہادر رہنما کے منہ سے ایسی باتیں سن کر خود انکی جماعت کے رہنماوں اور کارکنوں کا جو ردعمل سوشل میڈیا پر آرہا ہے وہی کافی ہے۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ جب فزیکلی یعنی جسمانی طور پر ہزاروں کارکن پشاور سے اسلام آباد کی طرف آئے تو انہیں برہان انٹرچینج پر چھوڑ کر غائب ہونے والوں کو درس حریت یاد کیوں نہیں آیا۔ خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں ایک بار پھر اپنی فلمی سٹائل خطابت کا زور دکھایا اور لوگوں کو کہا کہ اب انہیں باہر نکلنا ہوگا یعنی وہ بزبان جسٹس شاہ دین ہمایوں کہہ رہے ہیں
اٹھو وگرنہ حشرنہیں ہو گاپھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اب انکی پارٹی کے بانی رہنماءبھی آخری حربے کے طور پر وکلاءکے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی تیاری کر رہے ہیں کہ انکی پارٹی وکلاءتحریک کے شانہ بشانہ ہوگی۔ اب شانہ کس کا ہوگا اور بشانہ کون ہوگا‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم ایک بات واضح نظر آرہی ہے کہ جلد ہی ملک میں ایک نئی سیاسی و قانونی جنگ کے نام پر ہلہ گلہ اور دنگا فساد والا ماحول نظر آنے لگے گا جو حکومت کیلئے ایک نیا امتحان ہوگا۔ اب تو وزیراعلیٰ خیبر پی کے کو باربار اسلام آباد پر سرکاری مال اور سازوسامان کے ساتھ چڑھائی کی اچھی پریکٹس ہو گئی ہوگی اور راستے سے نظریں بچا کر خیبر پی کے ہاﺅس پہنچنے کا طریقہ بھی معلوم ہو چکا ہے جبکہ اصل بات جیب میں ایک پیسہ نہ ہونے کے باوجود اسلام آباد کے پرخطر پہاڑی راستے عبور کرکے پشاور تک پہنچنے کا علم و تجربہ بھی حاصل ہے۔ یوں اگلے کسی تحریکی لمحے میں وہ ان تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ رہ گئے بے چارے کارکن تو وہ . کینچوں ، غلیلوں ،پتھروں اور ڈنڈوں کے ساتھ پکڑے جائیں گے۔ وکلاءچونکہ کالے کوٹ والے ہوتے ہیں‘ ان پر شاید پولیس ہاتھ ہلکا رکھے گی‘ ساری شامت ان بے چارے ورکروں کی آئےگی جو دور دراز سے اپنے سنہری خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیئے آتے رہتے ہیں۔ خواب دکھانے والے خود ہر آفت سے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ انکی قیمتی بلٹ پروف گاڑیوں پر نہ گولیاں اثر کرتی ہیں نہ آنسو گیس اور نہ ہی انکے اندر کارکنوں کی آہیں سنائی دیتی ہیں۔ ویسے سوال یہ بھی ہے کہ کیا عوام روحانی طور پر اب تک انکے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے تھے۔
کراچی پولیس افسران کا ایک دوسرے پر کچے کے ڈاکوﺅں سے رابطے کا الزام۔
ڈاکو کچے کے ہوں یا پکے کے‘ انکا وردی والوں کے ساتھ بھائی چارہ ہمیشہ سے قائم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ وردی والے کب کا ان کا قلع قمع کر چکے ہوتے۔ مگر باہمی اشتراک اور بھائی چارہ کی بدولت یہ دونوں پرامن بقائے باہمی اصول کے تحت ایک اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس بندھن کو مضبوط بنانے میں ہماری اشرافیہ کے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والی سیاسی اور غیرسیاسی شخصیات اور خانوادوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ جو انہیں ایک تحفظ کی چھتری فراہم کرتے ہیں۔ مگر کہتے ہیں ناں‘ کہ چوری‘ ڈکیتی یا لوٹ کے مال پر ہمیشہ ڈاکو‘ چور اور انکے مہربانوں میں بھی گلہ شکوہ ہو جاتا ہے۔ بات بہت آگے تک چلی جاتی ہے۔ سو ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ اب بھی ہو رہا ہے۔ آئندہ بھی ہوتا رہے گا کیونکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ جہاں مال آتا ہے‘ اتفاق و محبت رخصت ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی گزشتہ دنوں کراچی میں ہوا۔ جب پولیس کے دو بڑے افسران کے درمیان کچے کے ڈاکوﺅں کے حوالے سے شدید اختلافات سامنے آئے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر کچے کے ڈاکوﺅں سے رابطے رکھنے‘ سرپرستی کرنے کے الزامات عائد کئے۔ اگرچہ لوگ سب کچھ جانتے ہیں‘ اس لئے انکے منہ سے یہ سن کر کسی کو حیرت نہیں ہوئی البتہ اعلیٰ پولیس حکام کے کان ضرور کھڑے ہو گئے کہ یہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے کے کیسے پھوٹ گئی ہے۔ ڈی آئی جی سکھر پیر محمد نے اپنے ایک ایس پی پر الزام لگایا ہے کہ اسکے کچے کے ڈاکوﺅں کے ساتھ رابطے ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہہ سکتے ہیں وہ ڈاکوﺅں سے ملے ہوئے ہیں۔ جوابی طور پر ایس ایس پی گھوٹکی حفیظ بگٹی نے حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکوﺅں سے ڈی آئی جی کے رابطے ہیں۔ اس گولہ باری سے گھبرا کر حکومت سندھ نے دونوں اعلیٰ افسروں کو معطل کر دیا ہے۔ اس باہمی جھڑپ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچے کے ڈاکوﺅں کیخلاف دو صوبوں کی پولیس اور رینجرز کیوں ناکام ہے۔ جب محافظ ہی ڈاکوﺅں سے ملے ہونگے تو ایسا ہی ہوگا۔
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
اوپر سے ان کے ضامن بھی حالات خراب یعنی تعلقات میں رخنہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اس سے انکی چودھراہٹ بھی متاثر ہوتی ہے جو کسی کو منظور نہیں۔ اب دیکھتے ہیں آگے آگے کیا چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں اور کس کو ہٹایا جاتا ہے۔۔
ٹرمپ انتخابی مہم میں جان ڈالنے کیلئے چپس فروخت کرنے لگے۔
امریکی صدارتی الیکشن میں صدارتی امیدوار ٹرمپ نے تو لگتا ہے نت نئے رنگ بھرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ایسا تو ایشیائی ممالک میں نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو عجیب نہ لگتا کیونکہ ان ممالک میں سیاست دان ایسے سوانگ رچاتے رہتے ہیں۔ ٹرمپ نے ریاست فلاڈلفیا میں اپنی انتخابی مہم کے دوران چپس کی بڑی دکان پر جا کر آرڈر لئے اورچپس فروخت کئے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہاں رش لگ گیا اور ٹرمپ کے حامی فرط مسرت سے ناچنے لگے۔ ہے ناں عجیب بات۔ اب تو لگتا ہے امریکی صدارتی الیکشن میں بھی نوٹنکی دکھائی جانے لگی ہے۔ اس کا اثر عام لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں کو عام آدمی کی طرح کام کرتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں حالانکہ وہاں عام ہو یا خاص‘ سب اپنا کام خود کرتے ہیں۔ کسی پر بوجھ نہیں بنتے۔ حکمرانوں کے بچے بھی ہوٹلوں میں ملازمت کرتے ہیں‘ ہمارے ہاں حکمرانوں کی اولادیں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتی ہیں جن کیلئے درجنوں ملازمین موجود ہیں۔ یوں انہیں پیدا ہوتے ہی حکم چلانے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے جو کبھی نہیں اترتا۔ ٹرمپ تو ویسے بھی ایک ولن اور ایک کامیڈین کا کردار بخوبی ادا کرکے لوگوں کے دل جیتے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انکے حامی بھی انہی کی طرح سر پھرے ہیں۔ ایسے کام کرتے ہیں کہ عقل حیران ہو جاتی ہے۔ گزشتہ روز ٹرمپ کے زبردست حمایتی ایلون مسک نے تو کمال ہی کر دیا۔ انہوں نے ایک پٹیشن جاری کی جس میں ٹرمپ کی حمایت کا انہیں ووٹ ڈالنے کا حلف اٹھانے والوں کو لاکھوں ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ کھلی سیاسی رشوت ہے یا نہیں۔ امریکی عدالتیں جانیں۔ مگر وہاں کی عدالتیں ایسی فضولیات میں پڑ کر وقت ضائع نہیں کرتیں۔ یہ تو ہمارے ہاں لوگوں نے وطیرہ بنالیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر دھوکا دیتے ہوئے ذرا ذرا سی بات پر عدالتوں کا وقت ضائع کرتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ اگر ہمارے ہاں کسی نے امیدوار کے حق میں ایسی مہم چلائی ہوتی تو ابھی تک درجنوں درخواستیں عدالتوں میں دائر ہو چکی ہوتیں۔ یہاں تو بریانی‘ نان چنے‘ چائے ہی پر مخالفین طرح طرح کے الزام لگا کر دوسرے کو بدنام کرتے ہیں۔ کیا بے چارے غریب ورکروں کو کھانا کھلانا‘ چائے پلانا گناہ ہے۔ جبکہ اعتراض کرنے والے خود بھی یہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کھانا نہ سہی نقد رقم ہی بانٹتے نظر آتے ہیں۔