پاکستان کے سینٹ اور قومی اسمبلی نے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہے- سینٹ میں 65 اراکین نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا جبکہ قومی اسمبلی میں 225 اراکین نے اس ترمیم کی منظوری دی- صدر پاکستان نے اس آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے- انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس ( آئی سی جے ) نے اس ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کیلئے دھچکا قرار دیا ہے- اسکے بقول یہ ترمیم جس انداز سے منظور کرائی گئی ہے اسے ڈرامائی انداز بھی کہا جا سکتا ہے-اس ترمیم کی تیاری اور مشاورتی عمل کے دوران کئی” مقامات آہ و فغاں“ بھی آئے-اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی کردار کو بصیرت اور دانش پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے-وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اس ترمیم کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں جو خطاب کیا اس میں انہوں نے کہا کہ” حکومت اور پارلیمان کے سروں پر منڈلانے والے خطرات کے بادل چھٹ گئے ہیں“۔ وزیراعظم کے اس بیان سے 26 ویں ترمیم کے پس منظر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے-چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینیارٹی کی بنیاد اور اصول پر نامزد ہونیوالے جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھالنے والے تھے مگر بالادست کرپٹ سیاسی کلچر میں جسٹس منصور علی شاہ جیسے آزاد ذہن کے حامل اہل اور دیانت دار افراد چیف جسٹس کے طور پر وارہ نہیں کھاتے-ان کا راستہ روکنے کیلئے لازم تھا کہ آئین میں حسب منشا ترمیم کی جائے تاکہ اپنی من مرضی سے چیف جسٹس پاکستان نامزد کیا جا سکے جس سے حکومت اور اسمبلی کو کسی قسم کا آئینی اور قانونی خطرہ نہ ہو- آئین کے آرٹیکل 179 میں چیف جسٹس پاکستان کی نامزدگی کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ نامزدگی خود بخود نظام کے تحت سینیارٹی کی بنیاد پر ہو جاتی تھی-26 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں سپریم کورٹ کے تین سینئرترین ججوں میں سے ایک جج کو پاکستان کا چیف جسٹس بنایا جائےگا۔ چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی جبکہ ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہی رہے گی-اس چناو¿ کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائےگی جس میں آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور چار اراکین سینٹ شامل ہوں گے-یہ کمیٹی متناسب نمائندگی کے اصول پر تشکیل دی جائے گی-یہ کمیٹی تین میں سے کسی ایک جسٹس کا نام وزیراعظم پاکستان کو ریفر کرے گی جو منظوری کے بعد صدر پاکستان کو بھیجیں گے- چیف جسٹس پاکستان اور دوسرے ججوں کی تقرری اور مانیٹرنگ اب مقننہ اور انتظامیہ مشاورت کے ساتھ کرےگی۔ جن کے خلاف اپیلیں سننے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے-یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی کسی ریاستی ادارے کو موقع ملتا ہے وہ آئین سے انحراف کرنے سے گریز نہیں کرتا- یہ بات درست ہے کہ پارلیمنٹ کو دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے البتہ آئینی اور قانونی روایات کا تقاضا ہے کہ کوئی ترمیم ایسی نہ کی جائے جو آئین کے بنیادی اصولوں اور روح کے خلاف ہو-
آئین میں ترمیم کر کے ججوں کی تعیناتی کے اصول کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے-26 ویں ترمیم سے پہلے ججوں کی تعیناتی کا آخری فیصلہ جوڈیشل کمیشن کرتا تھا- حکومت نے 19 ویں ترمیم کر کے یہ اختیار خود ہی عدلیہ کو دیا تھا-حالانکہ اصولی طور پر یہ طریقہ کار بھی غلط ہے کہ جج خود ہی ججوں کا انتخاب کریں- نئی ترمیم کے مطابق ججوں کی تعیناتی کیلئے سپریم جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائےگا اس کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے جبکہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔ اس کمیشن میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پاکستان بھی شامل ہوں گے- اس کمیشن میں پاکستان بار کونسل کا نام زد کردہ ایک سینئر وکیل بھی ہوگا جس کا تجربہ 15 سال سے زیادہ ہونا چاہیے-اس کمیشن میں سینٹ اور قومی اسمبلی کے دو دو اراکین شامل ہونگے جن میں سے دو کا تعلق حکومت اور دو کا اپوزیشن سے ہوگا- ایک خاتون یا غیر مسلم جو سینٹ کا رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہو وہ اس کمیشن کا رکن ہوگا جسے قومی اسمبلی کے سپیکر نامزد کریں گے۔- عدلیہ کے ججوں کی تقرری کیلئے ایک غیر جانبدار اعلی سطح کا خود مختار جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ہونا چاہیے جو میرٹ اہلیت دیانت اور تجربے کی بنیاد پر ججوں کی تقرری کرے-نئی ترمیم 191 اے کیمطابق سپریم کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دیا جائےگا جس کا فیصلہ پاکستان جوڈیشل کمیشن کریگا۔ اس آئینی بینچ میں ہر صوبے کو ممکنہ حد تک نمائندگی دی جائےگی- سب سے سینیئر جج اس آئینی بینچ کی صدارت کریگا یہ آئینی بینچ آئین کی تشریح اور مشاورتی دائرہ اختیار استعمال کرنے کا استحقاق رکھے گا- عملی طور پر آئینی بینچ کا سربراہ ہی طاقتور چیف جسٹس ہوگا-199 اے کےمطابق ہائی کورٹس کے از خود نوٹس کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے اس کا اختیار آئینی بینچ کو حاصل ہوگا-ہر صوبے میں آئینی بینچ تشکیل دیا جا سکے گا جس کیلئے متعلقہ صوبے کی اسمبلی 51 فیصد ووٹوں سے قرارداد منظور کریگی- اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ایک آئینی بیچ تشکیل دیا جائیگا جس کی منظوری قومی اسمبلی 51 فیصد ووٹوں سے قرارداد منظور کر کے دےگی- آئین کے آرٹیکل 215 میں ترمیم کر کے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین اس وقت تک اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے جب تک نئے الیکشن کمیشن اور ارکان نامزد نہیں ہو جاتے-اس ترمیم سے موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور اراکین الیکشن کمیشن کو سہولت دی گئی ہے- آرٹیکل 9 اے کے ذریعے صاف ماحول کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے -سینیٹر علی ظفر نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن عدلیہ اور جمہوریت کیلئے سیاہ دن ہے- سینئر آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی آزادی اور خود مختاری ختم ہو گئی ہے اور اب عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کے کنٹرول میں آ چکی ہے-ججوں کیلئے آزاد ذہن کے ساتھ آزاد فیصلے کرنا آسان کام نہیں ہوگا- 26 ویں آئینی ترمیم کےمطابق پارلیمانی کمیٹی ججوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لے گی-گویا ججوں کے سروں پر پارلیمانی کمیٹی کی تلوار لٹکتی رہے گی - وکلاءپہلے ہی اس ترمیم کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تحریک جاری رہے گی کیونکہ اس ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری ختم ہو کر رہ گئی ہے جس کو عوام اور وکلا کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ عوام اور وکلاءکی طاقت سے حکومت کو مجبور کر دیا جائےگا کہ وہ یہ ترمیم واپس لے- چند سینئرآئینی ماہرین کیمطابق سینٹ میں چونکہ خیبر پختون خواہ کی نمائندگی نہیںہے اور صوبے کی نشستیں ابھی خالی پڑی ہیں اسی طرح قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں تا حال خالی ہیں لہذا ابھی تک سینٹ اور قومی اسمبلی کے ایوان نا مکمل ہیں۔ 8 فروری 2024ءکے انتخابات پر دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے جا چکے ہیں ان حالات میں سینٹ اور قومی اسمبلی کو کوئی بڑی آئینی ترمیم نہیں کرنی چاہیئے- 26 ویں آئینی ترمیم نے پاکستان میں سیاسی استحکام کے امکانات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے-
پارلیمنٹ اور عدلیہ کی برتری کی کش مکش
Oct 23, 2024