آئینی ترمیم کی کامیابی

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت اور اتحادیوں نے بھرپورمشاورت کے ساتھ چھبیسویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے پاس کرواکرملک کی آئینی تاریخ میں ایک انتہائی فیصلہ کن اور اہم سنگِ میل حاصل کر لیا ہے۔آئین کے آرٹیکل 19 کے بعد عدالتی اختیارات کا جو توازن عدلیہ کی طرف مکمل طور پر جھک چکا تھا اُس میں معنی خیز ترمیم کر کے پارلیمان نے اپنی بالا دستی کو بحال کردیا ہے جو پورے پاکستان کےلئے ایک انتہائی خوش آئند بات ہے اور اس پر تمام جماعتیں اور ان کے رہنما بالخصوص میاں نواز شریف،مولانا فضل الرحمن،صدر مملکت آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو زرداری، مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آئینی ترمیم کی کامیابی سے یقیناً پاکستان کی عدلیہ کی کارکردگی اور پارلیمان کی بالا دستی کے حوالے سے دور رس نتائج نکلیں گے۔ آئینی ترمیم عدلیہ پر پارلیمانی بالا دستی قائم کرنےکا ایک تاریخی آئینی فیصلہ ہے۔ چند اہم ترین فیصلے جو اس آئینی مسودہ میں شامل ہیں اور جن سے پاکستان کے عدالتی نظام میں نمایاں بہتری آئے گی، انکا احاطہ کرنا ضروری ہے۔
چیف جسٹس کی تقرری کےلئے سینئر ترین جج کی تعیناتی کے پرانے طریقہ کار کے بجائے، اب ایک بارہ رکنی سپیشل پارلیمانی کمیٹی تین سینئر موسٹ ججز کے ناموں میں سے ایک کا انتخاب چیف جسٹس کے طور پر کریگی جس کی حتمی منظوری وزیر اعظم اور صدر دینگے۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں بشمول حزبِ اختلاف کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ اس کلیدی عمل سے عدلیہ کی خود سے ہی سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے اور مسلح افواج سمیت باقی اہم اداروں کی طرح سپریم کورٹ میں بھی میرٹ پر چیف جسٹس کی تعیناتی کی جائےگی۔یعنی آرمی چیف کی تعیناتی کی طرز پرسپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں کے نام ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے اور یہ کمیٹی ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرےگی۔ اگر پاک فوج جیسانتہائی اہم اور ڈسپلنڈ ادارے کے سربراہ کے تقرر کا اختیارعوامی نمائندوں کے پاس ہے توچیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی بھی عوامی نمائندوں کے ذریعے ہونا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کریگا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کےلئے کمیشن کا رکن ہوگا۔دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کےلئے کمیشن کا رکن بنایا جائےگا۔ اس عمل میں بھی جمہوری اقدار کے مطابق پارلیمانی بالا دستی کے اصول کو نمایاں رکھا گیا ہے۔
اِسی طرح مسودے میں آئینی بینچ کی تشکیل بھی شامل ہے جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کریگی۔ اس اہم ترمیم سے عدلیہ کی کارگردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا کیونکہ آئینی بینچ صرف آئینی معاملات کو سنے گا جبکہ باقی عوام سے متعلق کیسز سپریم کورٹ معمول کیمطابق سنتی رہے گی، اس سے عدلیہ کی حکومتی معاملات میں مداحلت کا راستہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیگا۔اِسی طرح وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکے گی، اس سے عدلیہ کا حکومت کے انتظامی امور میں عمل دخل ختم ہو جائے گا اور حکومت پوری آزادی کے ساتھ اپنی گورننس اور کارکردگی پر توجہ دے سکے گی۔اور حکومتی اقدامات کی راہ میں کوئی روڑے نہیں اٹکا سکے گا۔اب کوئی فرد واحد سومونوٹس بھی نہیں لے سکے بلکہ ناگزیر سومونوٹس بھی چیف جسٹس کی سربراہی میں ججز کی تین رکنی کمیٹی ہی لے گی۔آئینی ترمیم میںججوں کی کارکردگی کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے جس میں کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے گا اور اگر کوئی جج اپنی کارکردگی بہتر نہیں کرتا تو اسکا کیس جوڈیشل کونسل کو بھیجا جا سکے گا۔
تمام سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججوں کی پاکستانی شہریت لازمی ہے اسکے علاوہ ان کا وکالت کا وسیع تجربہ اور لوئر کورٹ میں جج ہونے کا تجربہ بھی لازمی شرط شامل ہے جو کہ انتہائی خوش آئند امر ہے۔اس سے انصاف کی فراہمی میں تیزی کیساتھ بہتری آئے گی اور عوام کو بروقت اور سستا انصاف ضرور ملے گا۔اِسی طرح باقی ترامیم کا مقصد بھی عدلیہ کی کارکردگی کو عوام کے لئے بہتر بنانا ہے تاکہ عدالتی امور بھی جمہوری اقدار کے مطابق پارلیمان کی بالا دستی کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چلائے جا سکیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں چھبیسویں آئینی ترمیم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس سے پاکستان میں پارلیمان کی بالا دستی قائم ہو گئی ہے جس کا فائدہ تمام سیاسی جماعتوں اور عوام پاکستان کو ہوگا۔
 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ساتھ پارلیمانی بالا دستی یقینی بنانے کا ایک اہم سنگِ میل عبور ہوچکا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت جمہوری سیاسی جماعتوں کے اجماع سے ممکن ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے اگرچہ اس ترمیمی عمل میں حصہ نہیں لیا تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کو اس کام میں شراکت داری کی صلائے عام تھی۔آئینی ترمیم کے مندرجات اب سب کے سامنے آ چکے ہیں‘ جہاں تک ان ترامیم کے ثمرات کی بات ہے تو یہ ظاہر ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جانشیں کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے خواجہ آصف، احسن اقبال، شائستہ پرویز ملک اور اعظم نذیرتارڑشامل ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے راجہ پرویز اشرف، نوید قمر اور سینیٹرفاروق ایچ نائیک کمیٹی کا حصہ ہیں۔ایم کیوایم کی جانب سے رعنا انصار اور جے یو آئی (ف) سے کامران مرتضی کمیٹی میں شامل کئے گئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر گوہر علی خان، صاحبزادہ حامدرضا اور سینیٹرعلی ظفر خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہیں۔
 خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے اپناکام شروع کر دیا۔ اس سے قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ ایک خود کار نظام کے ذریعے مقرر ہو تا تھا‘ اب پارلیمانی رہنماﺅں کی سفارش کی صورت میں جمہور کا مینڈیٹ بھی اس میں شامل ہو گا۔ ملک کے جوڈیشل نظام کے لیے یہ ایک بڑی تبدیلی ہے‘ مگر امید کی جاتی ہے کہ وسیع تر آرا کے شامل ہونے سے اس فیصلے میں زیادہ بہتری آئے گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس ترمیم کے بعد عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے کچھ مزید قانونی ترامیم بھی متوقع ہیں۔ ملکِ عزیز کے عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے اقدامات کی بہت گنجائش ہے تاہم ضروری یہ ہے کہ یہ وسیع تر اہمیت کے حامل اقدامات وسیع سیاسی سوچ کے آئینہ دارہونے چاہئیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن