پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم کے کیا محرکات اور پس منظر تھا‘ اسکی نوبت کیوں آئی اور اس سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہونا ہے‘ آج کے کالم میں ان موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ کوئی قانون یا آئین کی کوئی شق یا کسی آئینی سیکشن میں ردوبدل ہمارے معاشرے کیلئے اور ادارہ جاتی سطح پر سود مند بھی ہو سکتا ہے اور اپنی اثرپذیری کے حوالے سے مضر بھی ہو سکتا ہے مگر آئین اور قانون سازی کا کلّی اختیار بہرحال پارلیمنٹ ہی کو حاصل ہے۔ یہ پارلیمنٹ (سینٹ اور قومی اسمبلی) میں بیٹھے لوگوں کا ہی سوچ بچار کا کام ہے کہ انہوں نے کوئی قانون یا کوئی آئینی شق اپنے سیاسی مقاصد یا مفادات کو پیش نظر رکھ کر منظور کرانے کا جتن کرنا ہے یا اجتماعی ملکی اور قومی مفاد اور اسی طرح ادارہ جاتی اور پورے سسٹم کی اصلاح ان کا مطمع نظر ہے؟۔ اس حوالے سے مجھے یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں کہ پارلیمنٹیرین حضرات ماضی سے اب تک کسی بھی قانون کو اور آئین کی کسی بھی شق کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے تناظر میں ہی منظور کرانے کا جتن کرتے رہے ہیں اور جس سلطانءجمہور کی خاطر جن سے ووٹ لے کر وہ پارلیمان میں داخل ہوتے ہیں‘ وہ کسی قانون سازی کے معاملہ میں ان کیلئے کبھی اولین ترجیح کا درجہ حاصل نہیں کر پائے۔ اگر غلطی سے کسی قانون یا کسی آئینی شق کا براہ راست یا بالواسطہ فائدہ انکے ہاتھوں راندہ درگاہ بننے والے عوام کو پہنچ جائے تو یہ انکی قسمت۔ ورنہ تو عوام کی حالت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے‘ بہت لادوا نہ تھے
ہمارے سسٹم میں شروع دن سے ہی ایک نقص یہ بھی پیدا ہو گیا کہ ادارہ جاتی سطح پر ہر ادارے کے سربراہ کے ذہن میں اپنے تئیں ”طرم خان“ بننے کا سودا سما گیا۔ 1973ءتک تو یہ وطن عزیز عملی طور پر ویسے ہی سرزمینِ بے آئین رہا اور اس سے پہلے کسی کتابچے کی شکل میں آئین کہلانے والی دستاویزات محض جرنیلی آمروں کو اختیارات کا گھنٹہ گھر بنانے کیلئے وضع کی جاتی رہیں۔ 1973ءمیں پہلا باضابطہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور اور نافذ ہوا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کا معروضی حالات میں اقتدار میں آنا ہی متنازعہ تھا۔
آج جو مخصوص لوگ اور حلقے موجودہ اسمبلی کو متنازعہ اور غیرآئینی قرار دیتے ہیں وہ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1972ءمیں کام کا آغاز کرنے والی اسمبلی کو کس کھاتے میں ڈالیں گے۔ اس اسمبلی کے انتخابات میں تو واضح اکثریت عوامی لیگ کو حاصل ہوئی تھی اور بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھی۔ اس حوالے سے انتخابات کے بعد اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہ کئے جانے اور پھر پاکستان کے دولخت ہونے کی اذیتیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس پر بات ہوگی تو بہت دور تک چلی جائیگی۔ سردست ہمیں 26ویں آئینی ترمیم کے محرکات کا جائزہ لینا ہے جس کیلئے ہمیں بطورِ خاص معزز ریاستی آئینی ادارے عدلیہ کے شروع دن سے اب تک کے کردار کا جائزہ لینا پڑیگا۔ اس حوالے سے میری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ عدلیہ کے لئے 26 ویں آئینی ترمیم کی نوبت آئی ہے تو ”اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردہ تست“ کے مصداق اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں‘ عدلیہ خود ہی ہے جس کے من میں ادارہ جاتی سطح پر سب سے بالادست ہونے کا سودا سمایا تو اس نے عدلیہ کے سربراہان و ارکان کے پاﺅں زمین پر ٹکنے ہی نہیں دیئے۔ وہ جسٹس محمد منیر سے جسٹس ارشاد حسن خان تک جرنیلی آمروں کے ماورائے آئین اقدامات پر انہیں نظریہ ضرورت اور اس سے آگے کے کسی ”طلسم“ کا سہارا لے کر ”مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا“ کے سرٹیفیکٹس سے نوازتے رہے اور آئین کو تج کر پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر اپنے مناصب کے تحفظ کا اہتمام کرتے رہے تو جرنیلی آمروں کی آشیرباد کے ساتھ انہیں اپنے فرمائے ہوئے کے مستند ہونے کا بھی گمان گزرنے لگا۔
بس پھر کیا تھا‘ جرنیلی آمروں ہی کی طرح آئین کو کاغذ کا محض ایک ٹکڑا سمجھنے اور اسے دوسرے آئینی ریاستی اداروں کیلئے ”دھررگڑا“ کیلئے استعمال کرنے کا اس محترم ادارے میں ایسا رجحان پیدا ہوا کہ انکے آگے آئین کے مطابق برتر حیثیت رکھنے والی پارلیمنٹ اور اسکے ماتحت قائم ہونے والی حکومتیں بے بس اور محض شوپیس نظر آنے لگیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جرنیلی آمروں کے بعد انکے تربیت یافتہ سول آمروں نے بھی آئین اور سول سسٹم کی اقدار کو جرنیلی آمروں کی ہی طرح ”مدھولنے“ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پہلے باضابطہ آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہی چھ ترامیم لا کر آئین کے تحت قائم سول سسٹم کی روح نکال کر اس میں سول آمریت کا صور پھونکا گیا جبکہ عدلیہ کے سربراہان نے کسی سول سسٹم کو خودمختاری کے ساتھ چلنے نہ دینے کا عزم باندھ لیا چنانچہ کروڑوں ووٹروں کی منشاءکے مطابق اقتدار میں آنیوالی جماعتوں اور انکے وزراءاعظم کو کوئی نہ کوئی جواز نکال کر کان سے پکڑتے ہوئے اقتدار سے باہر نکال پھینکنے کا رواج پڑ گیا۔ پھر برتری کا یہ زعم یہیں پر ہی نہیں رکا بلکہ یہ بھی ٹھان لی گئی کہ کس جماعت نے اقتدار میں رہنا ہے اور کس نے انکے مطابق نہیں رہنا‘ یہ فیصلہ کرنا بھی عدلیہ کے سربراہان اور اس کے بنچوں کا ہی کام ہے۔ اس کیلئے جسٹس سجاد علی شاہ کے ہاتھوں سول اتھارٹی کو رگیدنے کا آغاز ہوا اور پھر جسٹس افتخار محمد چودھری‘ جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ سے ہوتا ہوا جسٹس عمر عطا بندیال تک آن پہنچا جنہوں نے ایک طبقے کے ”کلٹ“ لیڈر کو اپنا بھی ممدوح بنا کر اس کیلئے ہر قسم کے ریلیف کے راستے نکالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس ایکسرسائز میں بے چارہ آئین بھی موم کی ناک بن گیا جس کی متعلقہ شقوں کی من مرضی کی تشریح نکال کر اپنے ممدوح اور اسکی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
تو جناب! ”ایسی زور آوری“ سے عاجز آکر پارلیمنٹ کو بھی کوئی نہ کوئی جتن تو کرنا ہی تھا جو آئین کی روح کے مطابق حقیقی طور پر تمام ریاستی اداروں سے بالاتر ادارہ ہے اور کسی کی زورآوری کے ہاتھوں رگڑے کھاتا رہا ہے۔ یہ 26ویں آئینی ترمیم اسی زور آوری کا ردعمل ہے اور خوشگوار طریقے سے پارلیمنٹ کو بچانے کیلئے پارلیمنٹیرین حضرات میں 2014ءجیسا ہی ایکا ہوا ہے۔ جب ”کلٹ لیڈر“ کی دھرنا تحریک اور پارلیمنٹ کے تسلسل کے ساتھ جاری گھیراﺅ سے عاجز آکر تمام جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو گئی تھیں، بعینہ موجودہ پارلیمنٹ میں بھی سول سسٹم کا تسلسل برقرار رکھنے کی متمنی سیاسی قیادتوں نے ایکا کرکے پارلیمنٹ کو زیربار رکھنے کے عدلیہ کے ایک گروپ کے خواب چکناچور کئے ہیں۔ اب سیاست و قانون کے جو حلقے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف سڑکوں پر محاذ گرم کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں‘ درحقیقت انکے سیاسی اور ذاتی مفادات عدلیہ کے اس گروپ کے ساتھ ہی وابستہ تھے جو خود کو ”کلٹ“ کی سیاست کا اسیر بنا چکا تھا اور آئین کو مدھولتے ہوئے کسی بھی طریقے سے اسے اقتدار میں واپس لانے کی گیم کھیل رہا تھا۔ اب بے شک آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچز تشکیل دینے پر اتفاق ہوا ہے تاہم مولانا فضل الرحمان کے اشارہ کردہ کالے سانپ کے دانت عدلیہ کے نوتشکیل کردہ اس ڈھانچے کے ذریعے بھی نکل جائیں گے کیونکہ آئینی بنحوں کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کی سیاست میں مداخلت کا رجحان بھی ختم ہوگا اور سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان کا کسی بھی معاملہ پر ازخود اختیار کو بروئے کار لا کر ازخود نوٹس لینے اور متعلقہ ادارے اور اس سے وابستہ شخصیات کو رگڑے لگانے کا اشتیاق بھی خود ہی دم توڑ جائیگا۔ آئین اور اسکے ماتحت اختیارات سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت اب آئینی بنچوں کے ہی دائرہ اختیار میں ہوگی تو اب عام سائلین کے سالہا سال سال سے زیرالتواءمقدمات جلد از جلد نمٹانے کا چیلنج روٹین کی سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کو درپیش ہوگا۔ اس چیلنج کو قبول نہیں کیا جائیگا تو ادارہ جاتی سطح پر اپنی برتری کا زعم پالنے والی معزز شخصیات کو خود ہی سمجھ آجائیگی کہ ”اے باد صبا‘ ایں ہمہ آوردہ تست“ اگر اب جسٹس اعجاز الااحسن کی طرح جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی اپنے مناصب سے مستعفی ہوتے ہیں تو عام فہم انسانوں کو بھی بخوبی سمجھ آجائے گی کہ یہ سارا طوفان اٹھانے کے پیچھے کیا ایجنڈہ، کیا حکمت اور اس حکمت کے پیچھے کیا سازش کارفرما تھی۔ آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سلیوٹ کہ انہوں نے گالیاں کھا کر بھی بے مزہ ہونے کے بجائے عدالتی نظام کی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالنے کا عمل جاری رکھا۔ وما علینا الالبلاغ۔
26ویں ترمیم۔ کچھ گفتنی‘ کچھ ناگفتنی باتیں
Oct 23, 2024