حقیقی زندگی کیا ہے؟ اصل میں یہ جملہ خیالی، مجازی یا مثالی دنیا کے مابین فرق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ادب اور انٹرنیٹ پر ”حقیقی زندگی“ اب ایک مقبول اصطلاح بن گئی ہے۔ جیسے آپ فلم کی بڑی اور ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر اداکاروں کو مختلف کرداروں میں دیکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ کردار بالکل غیر حقیقی ہوتے ہیں لیکن بادی النظر میں حقیقی کرداروں ہی کی نمائندگی یا عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ آج بتانے کی کوشش کریں گے کہ انسان دنیا میں کیوں آیا اور اصل میں حقیقی زندگی ہے کیا؟
شہرہ آفاق فلسفے کی کوئی کتاب پڑھنا شروع کر دیں تو لگتا ہے جیسے زندگی کی تمام گتھیاں اس میں سلجھا دی گئی ہیں۔ زندگی ہے کیا، یہ کیسے گزارنی ہے، مصیبتوں سے نمٹنا کیسے ہے، غم کو کیسے مٹانا ہے، خوشی میں شانت کیسے رہنا ہے، دولت کو کتنی اہمیت دینی ہے، سکون کیسے حاصل کرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ غرض موت تک زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس پر فلسفے کی کسی کتاب میں بحث نہ کی گئی ہو۔
بحث کرنا مجھے شروع سے پسند ہے۔ مباحث کو پڑھتے وقت یوں لگتا ہے جیسے زندگی کے ہر پہلو کی پڑتال کر لی گئی ہو۔ لیکن حقیقت میں اس ساری پڑتال کے باوجود تاحال زندگی کا کوئی ایسا جامع مطلب تلاش نہیں کیا جا سکا جو انسان کو پوری طرح سے مطمئن کر سکے۔ کہا جاتا ہے زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ وہ انسان ہی کیا، جس کی زندگی جدوجہد سے عبارت نہ ہو۔ جانور اور انسان میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ انسان بھوک مٹانے کے علاوہ بھی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تگ و دو کرتا ہے جبکہ جانور میں زندگی کو بہتر بنانے کی حس نہیں ہوتی۔
آپ کوئی بات سنتے ہیں اور خود کو اس سے متفق پاتے ہیں کہ اچانک کسی صاحب کی ایک اور دلیل آ جاتی ہے کہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے دن رات کام میں جتے رہنا چاہیے۔ کامیابی کی خاطر اگرچہ اپنے سے کمتر لوگوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھنا کوئی انسانیت نہیں۔ ایسے انسانوں اور ان جانوروں میں کوئی فرق نہیں جو شکار کی خاطر ایک دوسرے کو کاٹ ڈالتے ہیں۔ انسان کی زندگی کا مقصد تو دائمی سکون ہونا چاہیے۔ یہ بہت بڑی حماقت ہے کہ انسان موجود اور میسر لمحوں کو بھلا کر اَن دیکھے مستقبل کے لیے پریشان رہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ایک اور صاحب کو سن لیں جو کہتے ہیں ”یہ سب فلسفیانہ موشگافیاں ہیں۔ حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان اسی صورت میں خوش رہ سکتا ہے جب اس کی زندگی میں کوئی مصیبت نہ ہو۔“ صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت زندگی میں مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کا بڑا ذریعہ دولت کو سمجھتے ہیں۔ ایک فلسفی کا موقف ہے یہ کیسی زندگی ہوئی جس میں صرف دولت کمانا ہی مقصد ٹھہرا۔ پیسہ تو کوئی بھی کما لے۔ انسان کا مقام دولت کمانے سے کہیں بلند ہے۔ انسان دولت سے نہیں، اپنے افکار سے عزت اور مقام پاتا ہے۔
کبھی کبھی زندگی سے متعلق ایسے لگتا ہے کہ زندگی محبت سے عبارت ہے۔ رشتے، ناتے، دوستیاں ہی اصل میں زندگی کی رونق ہیں لیکن کبھی ایسے لمحے بھی آ جاتے ہیں جب آپ کو انھی لوگوں کے بارے میں سنگدلانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق جن کے بارے میں آپ نے ایسا سوچا بھی نہیں ہوتا۔
زندگی اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جبکہ ہر نعمت کا کوئی نہ کوئی استعمال بھی ہے۔ جس طرح کی بھی کوئی زندگی گزارتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد حیات اور نصب العین ہوتا ہے۔ جو بامقصد زندگی نہیں گزارتے وہ زندگی میں بہت سی محرومیوں کا شکار رہتے ہیں او رہر طرح کے حوادث ان کی زندگیوں میں بسیرا کر لیتے ہیں بامقصد زندگی گزارنے والے کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوتے۔
ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کے پاس موٹر سائیکل ہو گی، ایسے بھی ہوں گے جن کے پاس گاڑی۔ سوچیے! گاڑی کیوں بنائی جاتی ہے؟ مقصد یہ کہ بندہ آسانی سے اس میں سفر کر سکے۔ جلد سے جلد اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ جب یہی گاڑی سواری کے قابل نہیں رہتی، تنگ کرنے لگتی ہے تو اسے بیچ دیا جاتا ہے۔ یعنی جو چیز جس مقصد کے لیے بنائی جائے وہ اگر اس مقصد میں کام آتی ہے تو کام کی رہتی ہے، جب مقصد سے ہٹ جائے اور اس مقصد کو پورا نہ کرپائے تب اسے ضرورت ختم ہونے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ زندگی کی مختلف چیزوں کو ہم دیکھتے چلے جائیں۔ ہر چیز جب تک ”مقصد“ پر قائم رہتی ہے بندہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جیسے ہی مقصد ختم ہوتا ہے اس چیز کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں بنایا؟ اشرف المخلوقات کیوں قرار دیا۔ کیا انسان کو بے مقصد پیدا کیا گیا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اللہ پاک کے نزدیک انسان کو بنانے کا کوئی تو مقصد ہے۔ چنانچہ پارہ 18 اور آیت نمبر 115 میں ارشاد ہوتا ہے (ترجمہ) ” تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکار بنایا“۔ گویا ہمیں جھنجھوڑا جارہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ کوئی وجہ تو ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا۔ اس مقصدِ تخلیق کو پارہ 29 آیت نمبر 2 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (ترجمہ) ”وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں سے کس کا کام اچھا ہے۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ زندگی میں بندے کا ہر عمل خالص اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق ہونا چاہیے۔ یعنی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ زندگی ہمیں اس لیے ملی ہے کہ اپنے اندر خوفِ خدا اور حسنِ اخلاق پیدا کریں۔ زہد اور تقویٰ اختیار کریں۔ عاجز ی و انکساری کا پیکر بنیں۔ اپنے اندر شریعت کا جذبہ بیدار کریں۔ دل میں محبت الٰہی کا بیج بوئیں، با حیا رہنے کی کوشش کریں۔
ہمیں کس مقصد کے لیے بنایا گیا؟
Oct 23, 2024