روایات سے پتا چلتا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساری ساری رات اپنے رَبّ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرتے تو آپ کے پاو¿ں مبارک سوج جاتے جس پر آپکی یہ حالت دیکھ کر اللہ کی طرف سے آپکے لیئے فرمان آیا کہ اے میرے نبی جاگو آدھی سے آدھی رات کو۔ یعنی کہ رات کے پچھلے پہر کیونکہ یہ رات ہم نے تمہارے آرام کیلیئے بنائی ہے چنانچہ اسکے بعد نبی اکرم رات کے پچھلے پہر اٹھتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ رات کا یہ پچھلا پہر جو تہجد کا وقت ہوتا ہے اسکا بھی اپنا ایک الگ جہاں ہے۔ قارئین ذرا غور کریں کہ انسان کی اپنی حیثیت یا اوقات کیا ہے۔ انسان دراصل مٹی سے بنا ایک بے جان بت ہے جس میں جب حکم رَبِیّ جسے دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں داخل ہوتا ہے تو وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ اور جب اسکے جسم سے وہی روح وہی حکم ربی کھینچ لیا جاتا ہے تو اسکی حثیت دوبارہ ایک پتلے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ تصوف کی دنیا کے لوگوں کے نزدیک تہجد کے وقت یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب روحانیت کے سفر کے راہی اکثر اوقات ان لمحات میں اپنی سانسوں جو دراصل حکم ربی ہوتا ہے کو اللہ کے نور کی شکل میں ظاہراً دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کامل لوگوں کا تو یہ بھی یقین ہے کہ یہ وہی وقت ہوتا ہے جب انسان کی تیسری آنکھ کھلتی ہے اور اسے اپنے باطن سے آگاہی ہوتی ہے جبکہ ایک سکول آف تھاٹ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کے اوپر سے خوف کے سارے سائے چھٹ جاتے ہیں اور اس کے اندر سچ دیکھنے، اسے پرکھنے اور بولنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔
قارئین پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ “ چنگے دے سنگ بیٹھیاں میری جھولی پھل پے تے بھییڑے کول بیٹھیاں میرے اگلے وی رڑ پے” قارئین! راقم کسی ایسی پارسائی کا دعویدار نہیں کہ وہ سمجھے کہ اسکا کسی طور اہل تصوف یا کامل لوگوں کی صفوں میں شمار ہوتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان لوگوں کی صحبت نے اتنی خیر ضرور عطا کی ہے کہ تہجد کے اوقات میں ہم بھی اکثر اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور آج قدرت کے عطا کردہ انہی لمحات میں یہ خاکسار آپ سے یہ عرض کرنے کی ہمت کرنے چلا ہے کہ اسلام آباد کا جب ذکر کرنا مقصود ہو تو زیادہ تر دوست اسے “شہرِ اقتدار” کے نام سے پکارتے ہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ اس شہر کے مکینوں اور اس سے دلی لگاو¿ رکھنے والوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ اہلِ نظر لوگوں کے نزدیک اس شہر کی پہچان “مردہ ضمیروں کے شہر “ سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ یہ شہر جس خطہ میں پایا جاتا ہے اسکے متعلق ایک کہاوت مشہور ہے کہ “ یہاں کی سطح ہموار نہیں، موسم کا اعتبار نہیں، شجر کوئی پھلدار نہیں اور مکین کوئی وفادار نہیں۔ یقین نہ آئے تو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے امیر شہر سے لیکر سڑک پر مانگتے گداگر تک کو دیکھ لیں دونوں اخلاقی طور پر ایک ہی صف میں کھڑے ملینگے۔ کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں جسکا کوئی عمل اس بات کا ثبوت دے سکے کہ یہ بھی کبھی کسی وقت باضمیر لوگوں کی بستی ہوا کرتی تھی۔ مقننہ، عدلیہ یا انتظامیہ میں کوئی تو ایسا دعویدار ہو جسکا ضمیر زندہ ہو اور جو شخصی مفادات سے ہٹ کر ادارہ جاتی سربلندی کیلیئے کچھ کر رہا ہو۔ چلیں مزید تفصیل جاننا چاہتے ہیں تو اس وقت جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو یہاں اس شہر میں آئینی اصلاحات کی آڑ میں اپنے اپنے اقتدار کے دوام کیلیئے جس سطح پر جسطرح ضمیر فروشی کا بازار گرم ہے اسے دیکھ کر کوئی کیا کہے کہ مصر کے بازاروں میں تو حسن جوانی اور جسم بکتا تھا، اسلام آباد کے اس شہر میں آ کر دیکھو۔ لوگوں کے ضمیروں کی کس طرح بولی لگ رہی ہے۔
اس خاکسار نے اپنے چیلنج میں تین اداروں کا نام لیا ہے جس میں سب سے پہلے مقننہ یعنی کہ پارلیمان آتی ہے جسکی سپرمیسی کیلیئے ہر طرف سے ہر فورم پر آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ جی ہاں باضمیر لوگوں پر مشتمل یہ وہی مقننہ ہے جس نے آج سے کچھ سال پہلے ایک جرنیل کی نوکری کی ایکسٹینشن کیلیئے کیا کردار ادا کیا۔ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی مقننہ میں بیٹھے یہ لوگ آج بھی اپنے منہ سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انھوں نے کس مجبوری کے تحت اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک جرنیل کے کہنے پر انیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ اس مقننہ کے کیا کیا کارنامے تاریخ میں رقم ہیں کہ ایک ڈکٹیٹر ضیاالحق کے آئین توڑنے کے قدم کو بھی اسی مقننہ نے آئینی تحفظ دیا اور آج یہاں ایک دفعہ پھر ایک تماشہ لگا ہے جبکہ ضمیر بیچنے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے تو ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا۔ مقننہ کے بعد عدلیہ کی طرف آ جائیں۔ اعلی عدلیہ باضمیر لوگوں کا مسکن جب فیصلہ دینے پر آتی ہے تو آئین نہیں دیکھتی ضمیر کی آواز پر فیصلہ دیتی ہے۔ چاہے مخصوص نشستوں کا کیس ہو، ترسٹھ اے کا کیس ہو، مشرف کا اقتدار پر ناجائز غیر آئینی قبضے کا کیس ہو نصرت بھٹو اور عاصمہ جیلانی کیس ہو انوارالحق کی سرپرستی میں بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کیس ہو، سب کے سب تاریخ میں باضمیر ہونے کی روشن مثالیں ہیں۔ اب آئیں انتظامیہ کی طرف تو یہاں پر تو پوری کی پوری نفری صرف ضمیر کی آواز پر لبیک کہتی ہے۔ انکے آگے کسی عدالتی کسی قانونی کسی آئینی حکم کی کوئی حثیت نہیں ہوتی۔ وہ تو صرف اور صرف ضمیر کی آواز کے طابع ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ضمیر ہے کیا چیز اور کہاں پایا جاتا ہے۔ مجھ جیسا کم عقل، لاعلم ابھی اس مخمصے کا شکار تھا کہ اتنے میں میرا ہمزاد آن وارد ہوا اور پوچھنے لگا کہ کس مخمصہ کا شکار ہو۔ خاکسار نے اپنا مدعا بیان کیا۔ ہمزاد بولا اپنی تیسری آنکھ کھولو، خود ساختہ یہ ضمیر قارون کے خزانہ ( یہ پرتعیش زندگی، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، لگثری گاڑیوں) کی صورت میں تمہیں ہر گھر، ہر ادارے میں مدفون ملے گا جب ان گھروں کے مکینوں کا پاو¿ں اس پر پڑتا ہے تو یہ مدفون (ضمیر) انھیں ایک ہی نصیحت کرتا ہے کہ اگر میری آواز پر کان نہ دھرا تو میں تمہارے گھر سے نقل مکانی کر کے کہیں اور بسیرا کر لونگا اور پھر تم اپنی اسی کمپرسی کی زندگی میں چلے جانا جہاں سے تم اس شہر، جسے ( عام لوگ شہر اقتدار اور اہل نظر مردہ ضمیروں کا شہر کہتے ہیں) میں آئے ہو۔
٭....٭....٭