صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے بعد ترمیم بطور قانون نافذ العمل ہو گئی جبکہ نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ 12 رکنی کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے چار، پی پی پی کے تین، جے یو آئی (ف) کا ایک، پی ٹی آئی کے تین اورایم کیو ایم کا ایک رکن شامل ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم نافذ ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کیلئے موجودہ چیف جسٹس نے تین سینئر موسٹ ججز کے نام کمیٹی کو گزشتہ روز بھجوا دیئے۔ ان میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام شامل تھے۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے چیف جسٹس پاکستان کا تقرر کرکے نام وزیراعظم کو ارسال کرنا ہوتاہے۔اس کے بعد وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کی ایڈوائس صدر کو بھجوائیں گے۔ جو نئے چیف کی منظوری دیں گے۔ نئی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کے نام کا فیصلہ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی 2 تہائی اکثریت سے کرے گی۔چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کی مدت 3 سال اور ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 65 سال ہو گی۔ نئی آئینی ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری میں نمائندگی کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوگیا۔ حکومت اور اپوزیشن کی نمائندگی یکساں نہیں ہوگی۔ متناسب نمائندگی کے حساب سے (ن) لیگ، پیپلزپارٹی اور سنی اتحاد کونسل، ایم کیو ایم اور جے یو آئی کی بھی نمائندگی ہوگی۔ باقی کسی جماعت کا کوئی رکن پارلیمانی کمیٹی میں شامل نہیں ہوگا۔
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پورا ہو گیا۔ محلاتی سازشوں سے وزیراعظم کو گھر بھجوانے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ آئینی ترمیم کی منظوری اتفاق رائے کی شاندار مثال ہے۔اس سے ملک کا مستقبل محفوظ ہوگا۔جمہوریت کے لیے منڈلاتے خطرات ختم ہو گئے۔ اب لوگوں کو انصاف کے حصول میں آسانی ہوگی۔وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ترمیم کا مقصد پارلیمنٹ کو عدلیہ کا زیر نگین ہونے سے بچانا ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے ترمیم کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدلیہ کو غلام نہیں بننے دیں گے یہ جوڈیشری پر کیا گیا حملہ ہے۔ترمیم ڈکیتی ہے متنازعہ ترمیم کا خاتمہ کریں گے۔سینیئر موسٹ جج ہی کو چیف جسٹس مانیں گے۔پی ٹی آئی کی طرف سے دیا گیا ایسا شدید رد عمل نہ جانے کس کو دکھانے کے لیے تھا حالانکہ شروع سے لے کے ووٹنگ کے عمل کے اغاز تک تحریک انصاف سارے پراسیس کا حصہ رہی۔اس کے ساتھ حکومتی سطح پر کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ مذاکرات چلتے رہے۔قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے موقع پر تحریک انصاف الگ رہی جب کہ سینٹ میں اس کے دو سینیٹرز نے ایک شق کی مخالفت میں ووٹ ڈالا تھا۔حقیقت میں تحریک انصاف کا کردار فرینڈلی اپوزیشن کا ہی رہا۔ وہ مخالفت ہی میں سہی بہتر ہوتا کہ قومی اسمبلی میں جاری پراسیس کا حصہ بن جاتی۔
مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کے ستون مانے جاتے ہیں۔ ان تینوں پر بالادست آئین ہے۔ کل 26 ویں آئینی ترمم کی منظوری اور نفاذ تک تینوں اپنی اپنی جگہ پر مضبوط آزاد اور خود مختار تھے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کمپرومائز ہوئی ہے۔جس کا ذمہ دار کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اداروں میں بالادستی کی دوڑ نظر آتی رہی ہے۔مقننہ اور انتظامیہ عموماً ایک ساتھ چلتے رہے ہیں۔ عدلیہ اس طرح سے ان کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اگر وہ مقننہ اور انتظامیہ کے ساتھ مربوط ہو جائے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ عدلیہ کو ان کے ساتھ ایک مناسب فاصلہ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ فاصلہ کبھی رکھا گیا۔ کبھی بڑھا اور کبھی کم بھی ہوا۔مارشل لاوں میں تو عدلیہ آمریت کے ہم قدم نظر آتی رہی۔ جمہوری ادوار میں بھی عدلیہ کبھی حکمرانوں کا ساتھ دیتی نظر آئی کبھی جوڈیشل ایکٹوازم اختیار کیا گیا۔ ایسے چیف صاحبان بھی آئے جو وزیراعظم اور صدر سے بھی زیادہ پاور فل نظر آئے۔ عدلیہ کو حکومت، اداروں اور پارلیمان کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔
آئین نے عدلیہ کو خود مختار اور مضبوط بنا دیا تھا مگر کچھ فاضل جج صاحبان آئین اور قانون کی حدود سے تجاوز کرنے لگے۔ آئین میں ترمیم اور قانون سازی جیسے فیصلے صادر کیے گئے۔ وزیراعظم کا انتخاب اور احتساب پارلیمان کا اختیار ہے جو سپریم کورٹ استعمال کرتی نظر آئی۔کئی فیصلوں کو قانونی اور آئینی ماہرین آئین کو ری رائٹ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ 1997ءمیں سید سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔ ان کے مقابلے میں سعید الزمان صدیقی کا بینچ بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، نواز شریف حکومت کی بحالی، بے نظیر حکومت کو ایسے ہی انصاف کی عدم فراہمی، جنرل ضیا الحق پرویز مشرف کی آمریت کو جائز قرار دینا ،یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلیت، جنرل قمر جاوید باجوا کی ایکسٹینشن پر بحرانی صورتحال کا پیدا کر دینا، فلور کراسنگ کے وقت ووٹ کاونٹ کرنے کی ممانعت کے ساتھ ہی ڈی سیٹ کرنے کے فیصلوں کا آنا کہیں عدلیہ اختیارات سے متجاوز ،کہیں کمپرومائزڈ اور کہیں خوفزدہ نظر آتی ہے۔عدلیہ کی طرف سے آئینی حدود و قیود میں رہ کر فیصلے کیے گئے ہوتے تو آج بھی عدلیہ مضبوط ہوتی۔عوام الناس کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق بروقت انصاف مل رہا ہوتا تو وہ عدلیہ کی پشت کھڑے ہوتے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد آج سے عدلیہ کا نیا سفر شروع ہو رہا ہے۔اس کے پاس آج بھی قوت ہے، فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ اسے بروئے کار لا کر وہ اپنا مقام بلند کر سکتی ہے۔ اتنا تو آسانی سے ہو سکتا ہے کہ عام آدمی کو بروقت اور سستا انصاف مل سکے۔
عدلیہ کی جانب سے شروع کی گئی اختیارات کی جنگ میں اسکا اپنا ہی نقصان ہوا ہے۔ آئین میں ریاستی اداروں کی حدود متعین ہیں‘ اگر انکے تابع رہ کر کام کیا جاتا تو اس ترمیم کی نوبت ہی نہ آتی۔ آئینی ترمیم آچکی‘ معاملات طے ہو چکے ہیں‘ اب پی ٹی آئی کو اودھم مچانے کے بجائے سسٹم کے ساتھ مل کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے‘ اگر کوئی تحفظات ہیں تو انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر دور کیا جائے‘ جو جمہوری طریقہ ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو خود سوچنا چاہیے کہ اب تک کی انتشاری سیاست سے اس نے کیا حاصل کیا ہے۔