خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کہتے ہیں کہ عوام کی طاقت سے حال میں ہی میں منظور ہونے والی چھبیسویں آئینی ترمیم ختم کر دیں گے۔ من پسند لوگوں کو اہم عہدوں پر لگا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اس ترمیم سے عدلیہ پر حملہ کر کے محکوم کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ میں اپنے لوگ لگا کر مرضی کے فیصلے کرانا چاہتے ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی مبارک زیب کے معاملے میں ثابت ہوگیا کہ میرا فیصلہ ٹھیک تھا، میں نے غدار کو پہچان کر اسے ٹکٹ نہیں دیا تھا، جیت اور ہار الیکشن کا حصہ ہے، سیٹ اور حلقہ نہیں بلکہ نظریہ اہم ہوتا ہے، بانی کے نام پر ووٹ دینے والے ووٹ کا حق واپس لیں۔ غدار اور بزدلوں کی کیٹگری ایک ہے، پارٹی شوکاز دے کر ووٹ دینے والوں کیخلاف کارروائی کر رہی ہے، بانی پی ٹی آئی کی کمر میں چھرا مارنے والے کو فارغ کیا جائے گا، برے وقت میں سب کا پتہ چل رہا ہے، نام سامنے آ گئے ہیں پارٹی آج اعلان کر کے شوکاز دے گی۔
یہ علی امین گنڈا پور کے خیالات ہیں انہوں نے اس سے پہلے نظریاتی کارکنوں کی اہمیت کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔ آئینی ترمیم بارے ان کی اپنی سوچ اور پارٹی پالیسی ہے وہ اس انداز میں گفتگو کرتے ہیں کرتے رہیں یہ ان کا بنیادی حق تو ہے لیکن احتجاج کے نام پر جو بنیادی حق سے محروم ہوتے ہیں انہیں سہولت کون فراہم کرے گا۔ یہ آگے چل کر بات ضرور ہو گی لیکن خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کو آج اگر نظریاتی کارکن یاد آ رہے ہیں تو انہیں وفاق میں اپنے دور حکومت پر نظر دوڑانی چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جماعت کے بانی اور نظریاتی کارکنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا۔ مجھے تو اس لیے یاد ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے دھکے کھانے والوں، قربانیاں دینے والوں کے ساتھ گذرے چند برسوں میں بہت ناانصافی ہوئی، وہ دربدر ہوئے، ملک چھوڑ گئے، جب پارٹی کو ضرورت تھی وہ گلیوں سڑکوں پر تھے اور جماعت حکومت میں آئی تو ان پر دروازے بند کر دئیے گئے۔ حکومت میں آنے کے بعد غیر منتخب افراد کو نوازا گیا، وہ لوگ اہم عہدوں پر نظر آئے وہ جن کا پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا، وہ لوگ نظر آنا شروع ہوئے جو حکومت کے ساتھ آئے اور ساتھ ہی چلے گئے، حکومت میں ہوتے ہوئے تنظیم سازی پر کوئی کام نہیں ہوا اور آج بھی یہ کمی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ سو علی امین گنڈا پور کو نظریاتی کارکنوں بارے بات کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو سلوک آپ نے دور حکومت میں ان کے ساتھ کر دیا ہے نظریاتی کارکنوں سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ نظریاتی کارکنوں کے نظرئیے کو سب سے پہلے پی ٹی آئی نے خود فراموش کیا۔ اس لیے اب نظریاتی کارکنوں کو یاد کرنے کے بجائے غلطیوں کو یاد کریں۔
جہاں تک تعلق چھبیسویں آئینی ترمیم کا ہے اس بارے پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ نہ تو یہ پہلی آئینی ترمیم ہے نہ آخری آئینی ترمیم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات بدلتی رہتی ہیں اور قانون بنانے والے ادارے میں موجود افراد ایسی ترامیم کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن اس ترمیم کو کسی بھی سیاسی شخصیت کی کمر میں چھرا گھونپنے سے جوڑنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے، کاروبار کرنا ہے، معیشت کو بہتر بنانا ہے ، ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنا ہے، تعلیم و صحت کے شعبوں کو بہتر بنانا ہے۔ گذرے بارہ پندرہ برسوں کے دوران ملک میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجی سیاست نے صرف ہمیں معاشی طور پر کمزور ہی کیا ہے۔ اب اگر کوئی عوامی طاقت سے چھبیسویں آئینی ترمیم ختم کرنا چاہتا ہے تو اسے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ذریعے یہ کام کرنا چاہیے۔ جہاں یہ قانون بنا ہے وہیں اسے ختم کر دیں لیکن یہ سڑکیں بند کرنا، اسلام آباد پر چڑھائی کرنا، توڑ پھوڑ کرنا یہ کون سی جمہوریت ہے۔ اگر وہ احتجاج کرنا بھی چاہتے ہیں خیبرپختونخوا میں کریں، پنجاب والے یہاں کریں، اسلام آباد والے وہاں کر لیں، سندھ والے اپنے صوبے اور بلوچستان والے اپنے صوبے میں احتجاج کریں۔ اکٹھے ہو کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنا کیا یہ بھی آئین میں کہیں درج ہے۔
پاکستان کا آئین 1973 میں منظور ہوا تھا اور اس کے بعد سے اس میں کئی ترامیم کی گئی ہیں تاکہ وقت کے ساتھ پیش آنے والی ضروریات اور حالات کے مطابق اسے بہتر بنایا جا سکے۔ آئینی ترامیم کے ذریعے قانون سازی میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں جو عوامی مفاد اور ملکی ضروریات کے مطابق ہوتی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں چند اہم ترامیم کچھ یوں ہیں۔
پہلی ترمیم اس وقت کی گئی جب بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے آئین میں جغرافیائی حدود اور شہریت سے متعلق امور کو واضح کیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت پاکستان کے شہریوں کی تعریف میں ترمیم کی گئی اور پاکستان کی جغرافیائی حدود کا از سر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو آئین کی شق 260 میں ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا گیا۔ ایک ترمیم جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی اور اس نے صدر کو وسیع اختیارات دئیے۔ اس کے تحت صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ملا اور آئین میں کئی دیگر تبدیلیاں بھی کی گئیں جن سے صدر کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ تیرہویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات میں کمی سے متعلق تھی۔ اس کے تحت صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا اور وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔
سترہویں ترمیم صدر پرویز مشرف کے دور میں کی گئی اور اس کے تحت صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات کو بحال کیا گیا۔ تاہم اس ترمیم میں وزیر اعظم کے عہدے کی کچھ طاقتیں بھی شامل کی گئیں۔
اٹھارویں ترمیم بہت اہم ترمیم تھی جس نے پاکستان میں پارلیمانی نظام کو مضبوط کیا۔ اس ترمیم کے ذریعے صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات کو مکمل طور پر ختم کیا گیا اور صوبوں کو زیادہ خود مختاری دی گئی۔ اس کے علاوہ، وزیر اعظم کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا گیا اور کئی شقوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق ڈھالا گیا۔ چند سال قبل ا یک ترمیم فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق تھی ۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول حملے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ضروری سمجھا گیا، جس کے لیے اکیسویں ترمیم کی گئی۔ اب چھبیسویں آئینی ترمیم کی گئی ہے۔ اس ترمیم میں سودی نظام کے خاتمے کا ٹائم فریم بھی دیا گیا ہے۔ اس کا کریڈٹ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھیوں کو جاتا ہے۔
آئینی ترامیم کا مقصد ہمیشہ ملک کی ضرورتوں اور عوام کی خواہشات کے مطابق نظام کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ آئین پاکستان ایک زندہ دستاویز ہے اور وقتاً فوقتاً اس میں ترامیم کی جاتی ہیں تاکہ ملک کے حالات کے مطابق اسے ڈھالا جا سکے۔ آئینی ترامیم پارلیمان کی منظوری سے کی جاتی ہیں ۔ ہر ترمیم ملکی نظام کو بہتر اور مضبوط بنانے کی کوشش کا حصہ ہوتی ہے، فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں یا نہ پہنچ سکیں یہ مکمل طور پر ایک الگ بحث ہے۔ البتہ کسی بھی ترمیم کے وقت بیانیہ یہی ہوتا ہے کہ مقصد پاکستان کے عوام کو بہتر حکومتی نظام اور حقوق مل سکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ بھی عوام کو کچھ ملتا ہے یا نہیں البتہ یہ طے ہے کہ آئینی ترمیم سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
متاعِ شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے
بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے
ہم اپنی در بدری کے مشاہدے اکثر
نصیحتوں کی طرح کم سنوں میں چھوڑ آئے
بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا
کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے
گھرے ہیں لشکر اعدا میں اور سوچتے ہیں
ہم اپنے تیر تو اپنی صفوں میں چھوڑ آئے
ہوا ہی دن میں پرندے اڑائے پھرتی ہے
ہوا ہی پھر سے انہیں گھونسلوں میں چھوڑ آئے
کسے خبر ہے کہ زخمی غزال کس کے لیے
نشاں لہو کے گھنے جنگلوں میں چھوڑ بآئے
اڑیں گے کیا وہ پرندے جو اپنے رزق سمیت
سفر کا شوق بھی ٹوٹے پروں میں چھوڑ آئے
ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہل دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے
سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں ‘محسن
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے