میری "پادری" مشہور ہونے کی حسرت

کسی ٹی وی شو میں شریک ہوتا ہوں تو میرے نام کے نیچے ٹی وی سکرین پر ’’سینئر تجزیہ کار‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ جی ہاں عمر تمام صحافت کی نذر کردی۔ انتہائی لگن سے کوشش یہ بھی رہی کہ بطور صحافی تنخواہ کے علاوہ دیگر ترغیبات وسہولیات سے گریز ہی اختیار کئے رکھوں۔ عمران خان کے کسی ایک عاشق کے سامنے مگر آپ میرا نام لیں گے تو وہ مجھے ’’لفافہ‘‘ پکارے گا اور مصر رہے گا کہ میں شریف خاندان سے فقط لفافے ہی نہیں تحفے اور پلاٹ بھی لیتا رہا ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں بھی لکھنے کی مشقت سے گزرتے ہوئے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ کاش میری ملکیت میں وہ تمام پلاٹ ہوتے جو میرے نام سے منسوب کردئیے گئے ہیں۔ بڑھاپا آرام سے گزرجاتا۔
بہرحال ’’سینئر‘‘ کا لفظ کسی صحافی یا لکھاری کے نام سے پہلے لگادیا جائے تو مطلب اس کا یہ ہونا چاہیے کہ جس صاحب کو خطِ کشیدہ کے ساتھ ’’سینئر‘‘کہا جارہا ہے وہ تجربے کی بدولت فراست سے مالا مال ہے۔ کسی شعبے میں لیکن عمر گزاردینا ہی آپ کو حکمت عطا نہیں کرتا۔ تمام عمر گھاس کاٹتے رہوگے تو گھاس ہی کاٹتے رہو گے۔ کوئی نئی چیز سیکھ یا دریافت نہیں کر پائو گے۔ عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کے بعد مجھ بدنصیب نے اگر سیکھا ہے تو فقط اتناکہ تلخ ترین حقائق کو کچھ اس طرح بیان کرنے کی مہارت نصیب ہوجائے کہ پنجابی محاورے کے مطابق ’’پکڑائی‘‘ نہ دوں۔ خوف سے سہم کر ملفوف انداز میں بیان کرنے کے عادی ہوئے اذہان بالآخر بانجھ ہوجاتے ہیں اور میں اپنے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔
نیویارک ٹائمز کا مگر ایک کالم نگار ہے۔ نام ہے اس کا ڈیوڈ بروکس۔ بنیادی طورپر معاشی امور کے بارے میں لکھتا ہے۔ اس علم کی مجھے ککھ سمجھ نہیں۔ وہ معاشی حقائق کو مگر اس انداز میں بیان کرتا ہے کہ مجھ جیسا جاہل شخص بھی افراطِ زر کی بے شمار وجوہات اور اس کے سیاسی وسماجی اثرات سمجھنے کے قابل ہورہا ہے۔ ڈیوڈبروکس کا اصرار ہے کہ جو بائیڈن نے اپنے دور اقتدار میں امریکی معیشت کو بحال کیا ہے۔ اس کی دانست میں بائیڈن اپنے ملک میں بے روزگاری اور افراطِ زر کو حیران کن حد تک کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کی سیاسی جماعت مگر اس کے بارے میں مقبول بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہی۔
ڈیوڈ بروکس نے اپنی عمومی سوچ سے ذراہٹ کر دو تین دن قبل ایک کالم لکھا۔ اس کے ابتدائیے میں وہ سنجیدگی سے اس امر کا اعتراف کرنے کو مجبور ہوا کہ امریکی صدر کے انتخاب سے محض چند ہفتے قبل یہ طے کرنا بہت مشکل ہورہا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ ،کملاہیرس میں سے بالآخر کون کامیاب ہوگا۔ دونوں کے مابین مقابلہ بہت ’’ٹائٹ‘‘ ہے۔ ٹرمپ اور ہیرس کے مابین پھنسی گیم کے بارے میں حیرت کے اظہار کے بعدبروکس اس کی وجوہات تلاش کرنے میں مصروف ہوا تو مجھے سمجھ آئی کہ لکھاریوں کو احترام سے ’’سینئر‘‘ کیوں پکارا جاتا ہے۔ اس کے ایک کالم سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔
بروکس کے تجزیے کا نچوڑ یہ تھا کہ امریکہ جیسا ملک (جو ہمارے لئے ’’مستند ومتحرک‘‘ جمہوری نظام کی علامت تصور ہوتا ہے)وہاں کی سیاسی جماعتیں اپنی روایتی ساخت کے مطابق باقی نہیں رہیں۔ ٹرمپ اور ہیرس ’’سیاسی جماعتوں‘‘ کے بجائے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے دومتحارب دھڑوں کی نمائندگی کرتی ’’شخصیات‘‘ ہیں۔ ان شخصیات کے ووٹر نہیں عقیدت مند ہیں۔ دو سیاسی جما عتوں کی سوچ کے بجائے دوشخصیات کی اثرانگریزی کے مابین مقابلہ ہوتو ان کے حامیوں اور مخالفین کے مابین پالیسی امور پر بحث نہیں ہوتی۔ ساری قوت ’’مخالف شخصیت‘‘ کی بھد اْڑانے میں خرچ ہوجاتی ہے۔
سیاسی سوچ کے بجائے شخصیات کی محبت یا نفرت میں مبتلا ہوئے افراد اپنی پسندیدہ شخصیت کے حامی ’’صحافیوں‘‘ سے ’’رہ نمائی‘‘ حاصل کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں کو ڈیوڈبروکس نے دورِ حاضر کے ’’پادری‘‘ ٹھہرایا ہے۔ اس کی دانست میں ریگولر اور سوشل میڈیا پر حاوی ’’صحافی‘‘ ہی ٹرمپ یا کملاہیرس کی جماعتوں کی ترجمانی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل کسی جماعت کے کارکن اور مقامی رہ نما یہ فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے۔
عجب اتفاق یہ ہوا کہ جس دن ڈیوڈبروکس کا مذکورہ کالم چھپا اس روز ہمارے ہاں سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کرلئے گئے تھے۔ عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں تجسس کا مارا وہاں چلا گیا۔ جمعہ کے دن سے اتوار کی رات میں نے بے شمار گھنٹے پارلیمان کی عمارت میں گزارے ہیں۔ اس دوران مجھے مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کئی ’’سینئر‘‘ رہ نما ملے جو گزشتہ چند برسوں سے سینٹ اور قومی اسمبلی میں اس جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کی اکثریت مجھے بطور رپورٹر بہت عرصے سے جانتی ہے۔ عمر کا لحاظ بھی کرتی ہے۔
حیرت مگر اس وقت ہوئی جب ان جماعتوں کا تقریباََ ہر وہ شخص جسے میں اس کی جماعت کا اہم ’’تھمب(ستون)‘‘ اور متعلقہ جماعت کی قیادت کے قریب تصور کرتا رہا ہوں مجھے دیکھتے ہی ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں لے جاتا اور سرگرشیوں میں جاننے کی کوشش کرتا کہ 26ویں ترمیم کب پیش ہوگی۔ تحریک انصاف والے مگر یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آئے کہ ان کی جماعت سے حکومت نے کتنے اور کون کون سے بندے توڑلئے ہیں۔ 1985ء سے پارلیمانی راہداریوں میں خجل خوار ہورہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ ایسے ہی لوگوں سے ’’اندر کی خبر‘‘ جاننے کی کوشش کی جو گزرے جمعہ سے اتوار کی رات تک مجھے دیکھ کر کونوں میں لے جاکر ’’اندر کی خبر‘‘ پوچھتے رہے۔ ان کا رویہ مجھے ڈیوڈ بروکس کی یاد دلاتا رہا۔ کاش میں جوان ہوتا اور ڈٹ کر تحریک انصاف نہیں بلکہ عمران خان کی کرشمہ ساز شخصیت کی عقیدت میں ٹی وی سکرینوں کے علاوہ اپنا یوٹیوب بناکر ’’قصیدہ خوانی‘‘ میں مصروف ہوجاتا۔ اس تناظر میں کامیاب ہوجاتاتو بقول ڈیوڈ بروکس عمران خان کے بیانیے کو فروغ دینے والا ’’پادری‘‘ مشہور ہوجاتا۔ میرے ذریعے تحریک انصاف کے حامی ہی نہیں بلکہ عمران خان کو بھی پتہ چلتا کہ ان کے ساتھ ’’غداری‘‘ کا مرتکب کون شخص ہورہا ہے۔ میں جس کا نام لیتا وہ ویڈیوبناکر اپنی صفایاں دینے کو مجبور ہوجاتا۔ سچی بات ہے نام نہاد ذمہ دار صحافت کی خاطر عمر تمام کار بے سود میں ضائع کردی ہے۔ مزا نہیں آیا۔

ای پیپر دی نیشن

 ارضِ مقّدس ؛فلسطین کی خوشبو

بشیر قمر صاحب نیویارک میں عرض دراز سے مقیم ہیں۔ آپ پاکستانیوں کے سر کا تاج ہیں۔ مقبول خاص و عام ہیں۔ صحافتی اور سماجی خدمات ...