لاہور (نوائے وقت رپورٹ) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ ماضی میں مرضی کے فیصلوں سے ملک اور معیشت کو نقصان پہنچا۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے پارلیمانی بالا دستی یقینی بنانے کا ایک اہم سنگِ میل عبور ہوا، خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت جمہوری، سیاسی جماعتوں کے اجماع سے ممکن ہوئی۔ اب قوم کو اس کے ثمرات لوٹانے کا وقت ہے۔ مرکز ی دفتر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ساجد میرنے مزید کہا کہ ماضی کا نظام عدلیہ پر دھبہ تھا۔ 26ویں آئینی ترمیم سے آمریت کو دوام دینے والی سوچ کا خاتمہ ہو گا۔ اس سے قبل ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ ایک خود کار نظام کے ذریعے مقرر ہوتا تھا‘ اب پارلیمانی رہنماؤں کی سفارش کی صورت میں جمہور کا مینڈیٹ بھی اس میں شامل ہو گا۔ ملک کے جوڈیشل نظام کے لئے یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے اقدامات کی بہت گنجائش ہے، معاشی استحکام کی کوششوں میں بھی یہ اشتراکِ کار نظر آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کے بعد پارلیمان کی مضبوطی کا اگلا قدم سیاسی ہم آہنگی کی جانب اٹھنا چاہیے۔ پاکستان کا مفاد سیاسی بحران کو کم کرنے اور جہاں تک ممکن ہو مفاہمت کو فروغ دینے میں ہے۔ اس ترمیم سے سود کے نظام کا خاتمہ، شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی توقیر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم مولانافضل الرحمان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے دانشمندی سے ملک وقو م کی رہنمائی کی۔ پروفیسر ساجد میر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی توقیر کا ڈھنڈورا پیٹنے والو ں کو دس برسوں کی سپریم کورٹ کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ ماضی کی سپریم کورٹ عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کو متنازع بنانے میں حصہ دار بنی رہی۔