اسلام آباد+کراچی (نوائے وقت رپورٹ+سٹاف رپورٹر ) سپریم کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواست خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے وکیل حامد خان پیش ہوئے، انہوں نے آگاہ کیا انہیں درخواست واپس لینے کی ہدایات ملی ہیں۔ 16 ستمبر کو دائر درخواست پر رجسٹرار آفس نے 8 اعتراضات بھی داخل کیے تھے، عابد زبیری نے درخواست واپس لیے جانے کی استدعا کی تصدیق کی۔ تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزاروں کے درخواست واپس لیے جانے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔ دوسری جانب 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ میں محمد انس نامی درخواست گزار نے وکیل عدنان خان کی وساطت سے آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کی، درخواست میں وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کو عدالتی امور پر تجاویز کرنے کا اختیار نہیں، 26 ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ اور اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا، ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تعیناتی حکومت وقت کے پاس چلی گئی ہے، ججز تقرری کے جوڈیشل کمشن کی ہیئت کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کو بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔ عدالت عالیہ سندھ میں درخواست الہٰی بخش ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں وفاق، وزارت قانون اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پاس کر کے عدلیہ کی آزادی اور رول آف لا کی خلاف ورزی کی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 175۔اے میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی میں انتظامیہ کی مداخلت بڑھا دی گئی ہے اور اس قسم کی ترمیم عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت کرنا ہے۔