بشیر قمر صاحب نیویارک میں عرض دراز سے مقیم ہیں۔ آپ پاکستانیوں کے سر کا تاج ہیں۔ مقبول خاص و عام ہیں۔ صحافتی اور سماجی خدمات میں لاثانی اور بندہ عرفانی۔ نہایت نفیس اور شائستہ شخصّیت ہیں۔ چند سال قبل جب میں نیویارک میں مقیم تھا وہ اردو اور انگریزی زبان میں ہفت روزہ اخبار شائع کرتے تھے جس میں باقاعدہ میرے انگریزی مضامین شائع ہوتے تھے۔ انکی بیگم تسنیم صاحبہ کی سماجی خدمات بے مثال یعنی بر اوجِ کمال۔ دونوں اِس عمر میں بھی دوقالب اور یک جان۔ گویا بقولِ مرزا غالب
وفا داری بشرطِ ا?ستواری اصلِ ایماں ہے
مرے ب?ت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
یہ دونوں برہمن نہیں مومن ہیں۔ عاشقِ رسول ہیں۔ ان کے روحانی اور ایمانی مقام کا تعّین بعید از ظن و قیاس ہے۔
کی محمد?سے وفا ت?و نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
جناب بشیر قمر نے اپنا سفر نامہ بعنوان '' ارضِ مقّدس : فلسطین'' بھیجا ہے۔ رائے طلب کی ہے۔ مسلمان عموماً زیارتِ کعبہ ، اور زیارتِ روضہ رسول، اہلِ بیتِ رسول اور اصحابِ رسول کے لیے جاتے ہیں۔ اسرائیل جانے میں مسلمان چند وجوہ کی بنا پر احتراز برتتے ہیں۔ چونکہ فلسطین مدّتِ مدید سے اسرائیلی ظلم کا شکار ہے اور مسلمان وہاں زیرِ عتاب ہیں اس لیے وہاں کسی مسلمان زائر یا سیّاح کا جانا خطرے سے خالی نہیں۔ بشیر قمر لکھتے ہیں کہ جب وہ ایک ٹیکسی میں سوار ہوئے اور یہودی ڈرائیور کو معلوم ہوا کہ ہمارا بنادی تعلق پاکستان سے ہے اور اب ہم امریکہ میں مقیم ہیں تو ا س نے کہا کہ پاکستانی تو اسرائیل کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ اس سفر نامہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فلسطینی عوام زیرِ عتاب ہیں۔ بشیر قمر اور ا ن کی بیگم صاحبہ کے امریکی پاسپورٹ ہی ان کے ممد و معاون تھے۔ اسرائیلی یہودی امریکیوں کے سامنے دم نہیں مارتے۔ یہ سفر نامہ نہایت سادہ و سلیس زبان میں لکھا گیا ہے۔ اتنا دلچسپ اور معلوماتی ہے کہ '' کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست '' والا معاملہ ہے۔ فلسطین ارضِ مقّدس اس لیے ہے کہ یہ سرزمینِ انبیاء ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کا وجود برطانیہ کی مسلمانوں کے خلاف ایک سازش تھی۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ آیا ہے۔ فلسطین میں ابوالابنیاء حضرتِ ابراہیم کے علاوہ ان کی اولاد حضرتِ اسحاق، حضرتِ یعقوب اور حضرتِ یوسف کے مزار مبارک بھی ہیں۔ علاوہ ازیں حفرتِ موسی کی قبرِ مبارک بھی فلسطین میں ہے۔حضرتِ یوسف کی قبر اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقہ میں ہے جہاں مسلمانوں کو جانے کی اجازت نہیں جبکہ حضرتِ موسی کی قبر مسلمانوں کے علاقہ فلسطین میں ہے جہاں یہودیوں کے جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ بشیر قمر رقم طراز ہیں کہ جب وہ حضرتِ موسیٰ کی قبر کی زیارت کے لیے گئے تو ا?ن کی قبر ایک ویران علاقہ میں تھی جہاں دو چار افراد ہی زیارت کرنے آئے ہوئے تھے۔ یہودی یہاں کم ہی آتے ہیں ا?ن کا زیادہ زور '' دیوارِ گریہ'' پر گریہ کرنے پر ہے۔ یہ سفر نامہ بہت معلوماتی ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کی تاریخی سماجی، مذہبی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال کے علاوہ بشیر قمر نے جو واقعات اور حالات پر رائے زنی کی ہے وہ ا?ن کے اسلامی تاریخ اور اسلام سے آگہی کا ثبوت ہے۔ افسوس صد افسوس مغربی استعمار نے فلسطین کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپا ہے۔ اسلام دشمنی میں حد سے آگے گذر گئے ہیں۔ Zionism کے ارادے گریٹر اسرائیل کے ہیں جس میں مکہ و مدینہ بھی شامل ہے اور مسلمان خوابِ خرگوش میں ہیں۔فلسطین میں مسلمان،یہودی اور عیسائی مقیم ہیں۔ یہودی ریاست کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ میری انگریزی مضامین کی کتاب The Testament of Truth میں ایک مضمون شامل ہے جس کا عنوان Democratic Palestine ہے جس میں تینوں مذاہب کے پیرو کاروں کو ووٹ کی بنیاد پر حکومت میں نمائندگی کا حق ہے۔ لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی مشترکہ حکومت بنتی ہے۔ اسی طرح فلسطین میں مشترکہ حکومت ہی اس قضیہ کا واحد حل ہے۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور گذشتہ سات دہائیوں سے مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے۔ مزید برآں گذشتہ ایک سال سے جس بے دردی سے مسلمانوں کا غزہ میں قتلِ عام ہو رہا ہے کیا وہ امن کے دعویٰ داروں کے منہ پر طمانچے سے کم ہے؟ میں بشیر قمر صاحب کی اس کاوش کی داد دیتا ہوں اور مبارک باد بھی جنہوں نے نہایت عرق ریزی سے اتنی معلوماتی اور دلچسپ کتاب لکھی۔دعا گو ہوں کہ وہ آیندہ بھی دنیا کی سیر کریں اور احباب کو ایسی بصیرت افروز کتابوں سے مستفید کریں۔این دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔