خطے میں قیام امن کی کوششوں کی حمایت کے حوالے سعودی اردنی اتفاق رائے

سعودی عرب اور اردن ایسے ممالک ہیں جن کا علاقائی امن کے حوالے سے سیاسی ویژن ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے خطے میں شورش زدہ حالات پر سکون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے کہ یہ دونوں ممالک علاقائی مساوات کا حصہ ہیں۔ یہ بات سیاسی محققین نے اردن کے فرماں روا کے ریاض کے دورے کے نتائج کے حوالے سے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو باور کرائی۔

ریاض میں حال ہی میں سعودی اردن سربراہ ملاقات کا انعقاد ہوا۔ ملاقات میں سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان اور اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ دوم نے فلسطین اور لبنان کے ساتھ مکمل طور پر کھڑے ہونے اور ان کے دکھ درد میں کمی لانے کے لیے انسانی امداد پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیا۔عرب لیگ کے جنرل سکریٹری کے سابق معاون برائے سیاسی امور ڈاکٹر خالد الہباس کا کہنا ہے کہ اردنی فرماں روا کا دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ایک فعال عرب سفارتی سرگرمی کا آغاز ضروری ہو گیا تھا۔ سعودی عرب نے جنگ کی چکی روکنے اور امن اصولوں پر عمل درآمد کی خاطر عالمی برادری کے ساتھ رابطے کے ذریعے اس سرگرمی کی قیادت کی۔عرب لیگ کے سابق عہدے دار نے باور کرایا کہ اردن اور سعودی عرب بہت مضبوط تعلقات کے ساتھ مربوط ہیں۔ شاہ عبداللہ دوم کا حالیہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی رابطہ کاری کے سلسلے میں ہے۔ اردن کا جغرافیائی محل وقوع عمّان پر یہ بات لازم کرتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے سیاسی رابطہ کاری کی سطح کو بلند کرے ... اور پھر فوری تعمیر نو کے لیے اقدامات کا آغاز کرے۔ادھر اردنی صحافی محمود مشارقہ نے شاہ عبداللہ کے دورے کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے باور کرایا کہ علاقائی قضیوں کے حوالے سے سعودی عرب اور اردن کے بیچ موافقت اور نمایاں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ خطے میں امن کو یقینی بنانے کی کوششوں کی سپورٹ کی خاطر سعودی عرب اور اردن کے بیچ اعلی سطح کی رابطہ کاری اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ملکوں کے بیچ خصوصی رابطے اور تعاون کے ذریعے، خطے میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا ممکنہ خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب اردن میں سینیٹ کے سابق رکن ڈاکٹر طلال الشرفات کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تزویراتی گہرائی رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق سعودی عرب اس مشکل وقت میں اردن کی حمایت کا شدید خواہاں ہے بالخصوص جب کہ اردن کی اقتصادی کمزوری کے باوجود وہاں شامی پناہ گزینوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ الشرفات کے نزدیک اردن کے فرماں روا کے حالیہ دورے کے نتائج فائدہ مند ہوں گے۔ اس دورے کے مقاصد میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ان قضیوں کے حوالے سے مشترکہ رابطہ بھی ہے جنھوں نے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو اہے۔ڈاکٹر طلال لشرفات نے باور کرایا کہ سعودی اردنی رابطہ کاری عرب موقف کی یکجہتی کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم ہم آہنگی شمار کیا جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ خطے میں جاری تنازع کو ختم کرنے کی کوشش بھی شامل ہے تا کہ پھر فلسطینیوں کو اپنا راستہ چننے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا موقع دیا جا سکے۔ریاض میں منعقد ہونے والی سربراہ ملاقات میں سعودی عرب اور اردن کے درمیان برادرانہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں ان کی ترقی کے مواقع کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ عرب اور اسلامی دنیا کی سطح پر متعدد موضوعات زیر بحث آئے۔ ان میں مشرق وسطی کے حالات میں پیش رفت اور غزہ اور لبنان میں فائر بندی شامل ہے۔

ای پیپر دی نیشن