ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل یقیناً ایک افسوس ناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ ایم کیو ایم کے بانی رکن تھے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس قتل پر اظہار افسوس یا ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کارکن کسی بھی جماعت کا ہو سرمایہ ہوتا ہے اور ایم کیو ایم اس سرمائے سے محروم ہو گئی ہے جو ظاہر ہے اس کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ خصوصاً ان کارکنوں یا راہنمائوں کے لئے جو کسی نہ کسی وجہ سے اب غیر فعال ہو چکے ہیں!
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا افسوسناک واقعہ لندن میں ہوا۔ پاکستان میں ہوتا تو اس کے اثرات یقیناً مختلف ہوتے۔ الزاماتی سیاست کو مزید ہوا ملتی اور سیاسی جماعتوں کا وہ کردار اور ننگا ہو جاتا ایک دوسرے پر بلا سوچے سمجھے الزامات لگانے کے حوالے سے جو پہلے ہی ننگا ہے۔ پاکستان میں افسوسناک واقعات اور سانحات کی جو لہر آئی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن پر ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کو ہم نے اتنا پریشان اور غم زدہ نہیں دیکھا جتنا وہ اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک غیر فعال رہنما کے قتل پر تھے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھ ان کا پرانا رشتہ تھا اور پرانے رشتے ٹوٹ بھی جائیں تو دلوں میں ان کی یادوں کے چراغ کسی نہ کسی صورت میں روشن ہی رہتے ہیں۔ سو الطاف بھائی کو بھی یقیناً اپنے مرحوم دوست کی کوئی نہ کوئی بات کوئی نہ کوئی یاد ضرور ستاتی ہو گی جس کے نتیجے میں وہ اتنے پریشان اور غم زدہ تھے جتنا کوئی اپنے سگے بھائی یا بیٹے کی ہلاکت پر بھی نہیں ہوتا۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں الطاف بھائی کا یہ روپ پہلی بار دیکھا اور میری طرح بہت سے اور لوگوں نے بھی پہلی بار د یکھا۔ الطاف بھائی کو اس سے قبل ہم نے ہمیشہ گرجتے ہوئے دیکھا تھا۔ پہلی بار’’برستے‘‘ ہوئے دیکھا تو حیرانی ہوئی۔ اشک ان کی آنکھوں سے برس رہے تھے اور ہمیں اپنے دوست فاخر تسنیم کا شعر یاد آرہا تھا…
بارش میں بھیگتے ہوئے رونے کا فائدہ…
اشک مرے کسی کو دکھائی نہیں دیئے۔
ایک لمحے کیلئے تو یوں محسوس ہوا الطاف بھائی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک غیر فعال راہنما کی ہلاکت پر نہیں پاکستان میں سیلاب کی نذر ہو جانے والے سینکڑوں پاکستانیوں کے غم سے نڈھال ہیں یا ان بے گناہوں کے غم سے جو دہشت گردی کی تاریک راہوں میں مارے گئے۔ یا ان عوام کے غم سے جو مہنگائی اور اس نوعیت کے دیگر مسائل کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبور ہیںیا اس غم سے کہ دوسرے بہت سے ’’حکمران سیاستدانوں‘‘ کی طرح وطن عزیز کی ’’سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں‘‘ کیلئے بھی کچھ نہیںکر سکے! روتے کرلاتے، بین ڈالتے الطاف بھائی کی حالت دیکھ کر مجھے سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین بہت یاد آئے جن کے اکلوتے بیٹے کو دہشت گرد ہڑپ کر گئے اور وہ ہمت و حوصلے کا ایسا پہاڑ بنے رہے کہ پاکستان کا ایک ایسا فرد نہیں تھا جو ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکا ہو۔ تب مجھے جناب اجمل نیازی کے قبیلے یا قلم قبیلے کے سردار منیر نیازی کا یہ شعر بھی بہت یاد آیا!
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر..... غم سے پتھر ہو گیا لیکن رویا نہیں!
یہ شعر منیر نیازی نے یقیناً میاں افتخار حسین جیسے بہادر اور حوصلہ مند لوگوں کیلئے ہی لکھا ہو گا۔ وہ تو خود کو لیڈر بھی نہیں سمجھتے نہ کہتے ہیں اور ان کے مقابلے میں جناب الطاف حسین نہ صرف یہ کہ خود ’’لیڈر‘‘ ہونے کے دعویدار ہیں بلکہ ان کی جماعت میں ان کا ہر ماتحت راہنما اور کارکن مُصر ہے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی لیڈر تسلیم کیا جائے۔ ایک اور بات پر ہمیں حیرانی ہوئی کہ ڈاکٹر عمران فاروق کی تعزیت کے موقع پر ایم کیو ایم کے کسی کارکن یا راہنما کو الطاف بھائی کی ’’سیاسی خدمات یا بصیرت‘‘ کا تذکرہ باآواز بلند کرتے ہوئے نہیں سنا گیا۔ یہ ایسا عجیب و غریب واقعہ ہے جس کا الطاف بھائی کو نوٹس لینا چاہئے اور مجھے یقین ہے انہوں نے لے بھی لیا ہو گا کیونکہ ایسی ’’قومی کوتاہی‘‘ کے مرتکب ’’انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں کبھی مدد گار ثابت نہیں ہو سکتے!
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا افسوسناک واقعہ لندن میں ہوا۔ پاکستان میں ہوتا تو اس کے اثرات یقیناً مختلف ہوتے۔ الزاماتی سیاست کو مزید ہوا ملتی اور سیاسی جماعتوں کا وہ کردار اور ننگا ہو جاتا ایک دوسرے پر بلا سوچے سمجھے الزامات لگانے کے حوالے سے جو پہلے ہی ننگا ہے۔ پاکستان میں افسوسناک واقعات اور سانحات کی جو لہر آئی ہوئی ہے اس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن پر ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کو ہم نے اتنا پریشان اور غم زدہ نہیں دیکھا جتنا وہ اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک غیر فعال رہنما کے قتل پر تھے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھ ان کا پرانا رشتہ تھا اور پرانے رشتے ٹوٹ بھی جائیں تو دلوں میں ان کی یادوں کے چراغ کسی نہ کسی صورت میں روشن ہی رہتے ہیں۔ سو الطاف بھائی کو بھی یقیناً اپنے مرحوم دوست کی کوئی نہ کوئی بات کوئی نہ کوئی یاد ضرور ستاتی ہو گی جس کے نتیجے میں وہ اتنے پریشان اور غم زدہ تھے جتنا کوئی اپنے سگے بھائی یا بیٹے کی ہلاکت پر بھی نہیں ہوتا۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں الطاف بھائی کا یہ روپ پہلی بار دیکھا اور میری طرح بہت سے اور لوگوں نے بھی پہلی بار د یکھا۔ الطاف بھائی کو اس سے قبل ہم نے ہمیشہ گرجتے ہوئے دیکھا تھا۔ پہلی بار’’برستے‘‘ ہوئے دیکھا تو حیرانی ہوئی۔ اشک ان کی آنکھوں سے برس رہے تھے اور ہمیں اپنے دوست فاخر تسنیم کا شعر یاد آرہا تھا…
بارش میں بھیگتے ہوئے رونے کا فائدہ…
اشک مرے کسی کو دکھائی نہیں دیئے۔
ایک لمحے کیلئے تو یوں محسوس ہوا الطاف بھائی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک غیر فعال راہنما کی ہلاکت پر نہیں پاکستان میں سیلاب کی نذر ہو جانے والے سینکڑوں پاکستانیوں کے غم سے نڈھال ہیں یا ان بے گناہوں کے غم سے جو دہشت گردی کی تاریک راہوں میں مارے گئے۔ یا ان عوام کے غم سے جو مہنگائی اور اس نوعیت کے دیگر مسائل کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبور ہیںیا اس غم سے کہ دوسرے بہت سے ’’حکمران سیاستدانوں‘‘ کی طرح وطن عزیز کی ’’سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں‘‘ کیلئے بھی کچھ نہیںکر سکے! روتے کرلاتے، بین ڈالتے الطاف بھائی کی حالت دیکھ کر مجھے سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین بہت یاد آئے جن کے اکلوتے بیٹے کو دہشت گرد ہڑپ کر گئے اور وہ ہمت و حوصلے کا ایسا پہاڑ بنے رہے کہ پاکستان کا ایک ایسا فرد نہیں تھا جو ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکا ہو۔ تب مجھے جناب اجمل نیازی کے قبیلے یا قلم قبیلے کے سردار منیر نیازی کا یہ شعر بھی بہت یاد آیا!
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر..... غم سے پتھر ہو گیا لیکن رویا نہیں!
یہ شعر منیر نیازی نے یقیناً میاں افتخار حسین جیسے بہادر اور حوصلہ مند لوگوں کیلئے ہی لکھا ہو گا۔ وہ تو خود کو لیڈر بھی نہیں سمجھتے نہ کہتے ہیں اور ان کے مقابلے میں جناب الطاف حسین نہ صرف یہ کہ خود ’’لیڈر‘‘ ہونے کے دعویدار ہیں بلکہ ان کی جماعت میں ان کا ہر ماتحت راہنما اور کارکن مُصر ہے انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی لیڈر تسلیم کیا جائے۔ ایک اور بات پر ہمیں حیرانی ہوئی کہ ڈاکٹر عمران فاروق کی تعزیت کے موقع پر ایم کیو ایم کے کسی کارکن یا راہنما کو الطاف بھائی کی ’’سیاسی خدمات یا بصیرت‘‘ کا تذکرہ باآواز بلند کرتے ہوئے نہیں سنا گیا۔ یہ ایسا عجیب و غریب واقعہ ہے جس کا الطاف بھائی کو نوٹس لینا چاہئے اور مجھے یقین ہے انہوں نے لے بھی لیا ہو گا کیونکہ ایسی ’’قومی کوتاہی‘‘ کے مرتکب ’’انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں کبھی مدد گار ثابت نہیں ہو سکتے!