ٹیسٹ میچ مقابلہ

Sep 23, 2010

رفیق ڈوگر
کون ہے پہچان اور نشان این آر او جمہوریت کا؟ پاکستان کے عوام؟ پاکستان کے عوام تو اس رواں دواں جمہوریت کا نشان نہیں کہے جا سکتے۔ پہچان اور نشان تو وہی کوئی ہوتا ہے جو کسی نظام کو چلا رہا ہو۔ این آر او جمہوریت کی پارلیمنٹ ہے مالک اس صفائی پیشہ جمہوریت کی؟ اس کا تو نہ اس جمہوریت کو لانے میں کوئی حصہ ہے نہ اس کو چلانے میں کوئی کردار ہے اگر ہوتا تو کروا نہ لیتی بی بی پارلیمنٹ سوئس عدالتوں میں مقدمات بحال؟ کتنا عرصہ ہو چکا ہے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج صاحبان کی طرف سے وہ فیصلہ سنائے کہ این آر او کے تحت ختم کرائے گئے مقدمات بحال کرائے جائیں اس پارلیمنٹ کے انتخاب لاجواب سید اور گیلانی یوسف رضا اپنے آپ کو ملک کی جمہوریت کا چیف بتاتے ہیں وہ عدالت عالیہ کے حکم پر عمل کرنے کرانے کے ذمہ دار ہیں تو کیا ہے۔ انہوں نے عدالت عالیہ کے اس حکم پر عمل؟ نہیں کیا تو پوچھا ہے اس سے اس پارلیمنٹ نے یا اس کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں سے کسی ایک نے بھی ان سے کہ تم عدالت کے حکم کی توہین کیوں کر رہے ہو؟ کسی ایک بھی میثاقیہ یا غیر میثاقیہ پارٹی نے پوچھا ہے اس بارے میں اپنے پیر گیلانی سے کبھی؟ پارٹی نہ سہی کسی ایک رکن نے ہی کبھی ایوان میں اس بارے میں کوئی سوال اٹھایا ہو؟ ایک پارلیمنٹ موجود ہو وہ ملک کا اصل حکمران ادارہ بھی ہو اور وہ پوچھے ہی نہ اپنے انتخاب لاجواب سے کہ تم ملک کی عدالت عالیہ کی توہین کیوں کر رہے ہو؟ ایسا تو ممکن ہو نہیں سکتا کسی بھی نظام میں۔ تو کیا اس پارلیمنٹ کے جملہ خواتین و حضرات ارکان میں سے کسی ایک کو بھی اندازہ نہیں کہ ان کا انتخاب لاجواب عدالت عالیہ کے ساتھ کس قسم کا ٹیسٹ میچ کھیل رہا ہے۔ یہ تو کہا مانا نہیں جا سکتا کہ وہ سب اتنی سوجھ بوجھ کے مالک ہی نہیں ہوتے۔ کی ہے ان میں سے کبھی کسی ایک نے بھی ایوان کے رجسٹر میں حاضری لگانے ایوان میں تالیاں بجانے اور لطیفے سننے سنانے کی خدمات کا اس غریب قوم سے بھاری معاوضہ وصول کرنے میں کبھی کوئی کوتاہی؟ ان میں سے ہر کوئی ایک بھی روپیہ تک وصول کرنا تو جانتا ہو اور یہ اسے کبھی اندازہ ہی نہ ہو سکے کہ ان کا قائد ایوان ملک کی عدالت عالیہ سے کیا کھیل کھیل رہا ہے؟ مان لے گا ہالبروک؟ تو پھر وہ خون چوس ارکان اور ان کی پارلیمنٹ کیوں چپ چاپ چلی آرہی ہے اتنے عرصہ سے؟ اسی لئے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ نہ خود مختار ہے اور نہ ہی حکمرانی میں اس کا کوئی حصہ ہے اس کا حکمرانی میں ’’کھاؤ کھلاؤ اور موج اڑاؤ تک ہی حصہ پوری قوت ایمانی سے وصول کرتی رہی ہے وہ اس کے عوض اپنا کردار مریضانہ بھی ہے اور وہ حصہ وہ بخوبی ادا کرتی آرہی ہے۔ سید اور گیلانی یوسف رضا کی حکمرانی کے چاہ یوسف کے اندر سے اس چیخ و پکار کا شور قیامت تو آپ نے بھی کبھی سنا ہو گا کہ ہمیں عوام نے متخب کیا ہوا ہے۔ ملک کے سترہ اٹھارہ کروڑ عوام میں سے کتنے فیصد نے انہیں چنا ہوا ہے؟ پونے چودہ فیصد نے ہی تو دیا ہوا ہے انہیں ووٹ باقی نے تو آپ کو ووٹ دیا ہی نہیں تھا بی بی پارلیمنٹ تو پھر چودہ فیصد کی نمائندگی کرتی ہے۔ ملک کی قومی اسمبلی اور وہ چودہ فیصد کی نمائندہ اسمبلی اور پارلیمنٹ بھی نہ آزاد ہے نہ ملک کی حکمران ہے تو پھر ملک کے سترہ اٹھارہ کروڑ عوام اس این آر او صفائی پیشہ جمہوریت کی آن پہچان اور نشان امتیاز کیسے ہے اور مانے جا سکتے ہیں؟
جب ملک کے عوام اس جمہوریت کی پہچان نہیں ہوتے ان کی نمائندگی کی دعویدار کھاؤ کھلاؤ مال بناؤ پارلیمنٹ اس جمہوریت کا نشان نہیں ہے تو پھر کون ہے اس کی پہچان اور اس کا نشان؟ یوسف رضا گیلانی؟ وہی گیلانی جس کو اتنا بھی علم نہیں ہوتاکہ اس کا ہی وزیر داخلہ ہونے کا دعویدار رحمان ملک بلوچستان میں ایف سی کو پولیس کے اختیارات دینے کا فیصلہ سنانے جا رہا ہے جسے اتنے اہم قومی اور صوبائی معاملے کے بارے میں بھی اس فیصلہ کے سنا دئیے جانے کے بعد علم ہوتا ہو اور وہ ہچکی ہے کہ ’’رحمان ملک کو ایسا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘ مانتا ہے ایسے ہالبروک حامد کرزئی نواز شریف اسفند یار یا کوئی چھوٹا موٹا حضرت اور مولانا این آر او جمہوریت کی پہچان اور نشان؟ اس کی حکمرانی کے چاہ یوسف کے اندر سے سنی ہے آپ نے کبھی حاکمانہ ہچکی بھی کہ میں ہوں صفائی پیشہ جمہوریت کی پہچان اور نشان‘ تو پھر ہے کوئی اور این آر او شاہ یا شہنشاہ کے علاوہ کوئی اور اندرون اور بیرون ملک والوں کیلئے این آر او جمہوریت کی پہچان اور نشان؟ وہی جن کو ان کی بی بی اپنی بھٹو گدی کی وراثت سونپ گئی ہوئی ہیں تو پھر اپنی بی بی اور ان کے والد محترم کی جمہوریت کے علمبردار ہی اس صفائی پیشہ جمہوریت کی آن بھی ہیں پہچان بھی ہیں نشان بھی ہیں اور مالک و مختار بھی ہیں اور ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ان کی ملکیت اور خود مختاری کے تحفظ کیلئے ہی ہو رہا ہے یعنی بھٹو جمہوریت ہی رواں دواں ہے کسی بھی بھٹو جمہوریت کے پرستار کو ہے اس سے کوئی اختلاف؟ ہم پڑھتے ہیں کہ عدالت عالیہ نے ایک بار پھر سے اس جمہوریت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی آن اور شان اور پہچان کے چہرے سے داغ دھبے مٹانے مٹوانے کیلئے سوئس عدالتوں میں مقدمات بحال کروانے کا حکم دے۔ مان لے گی حکومت عدالت عالیہ کا حکم اب؟ ہم بھی دیکھیں گے۔ ہو جائے گا اس ٹیسٹ مقابلے کا اب کوئی فیصلہ؟ سب ہی دیکھیں گے۔
مزیدخبریں