ڈینگی۔ پپیتا.... آزمائش شرط ہے

بیدار سرمدی
آزمائش شرط ہے۔ لوگ پتے لیں یا پھل، وزیر اعلیٰ شہباز شریف دعاﺅں کا ایک نیا سلسلہ اپنے نام کر سکتے ہیں۔ شجرکاری میں ایک پیوند پپیتے کا بھی لگا لیں اور بس۔ زبان خلق شاید اسی طرح نقارہ¿ خدا بنتی ہے۔ ڈینگی بخار نے گذشتہ برس خاصی ہاہاکار مچائی تھی تب خلقت شہر نے دیکھا کہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں پپیتے کے کھجور کی طرح کے مگر نازک تنوں پر کوئی پتہ نہ بچا۔ ڈاکٹروں کے ایک بڑے حلقے نے تب بھی کہا تھا اور بار بار کہا تھا کہ ڈینگی بخار کا علاج صرف احتیاط ہے مگر خلق خدا نے کسی کی ایک نہیں سنی۔ شہر بھر میں شاید ہی کہیں پپیتے کا کوئی بوٹا ایسا بچا ہو جو ٹنڈمنڈ نہ ہوا ہو۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ قومی اخبارات میں تواتر سے سینئر ڈاکٹروں، میو ہسپتال کے پروفیسر ارشاد صاحب سے لے کر جناح ہسپتال کے ڈاکٹر جاوید صاحب کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ڈینگی بخار کے لئے پپیتے کے پتوں سے علاج کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں مگر ساتھ ہی ایک دو ڈاکٹروں کی طرف سے ایک مختلف نقطہ نظر بھی سامنے آیا مثلاً ڈاکٹر آصف جاہ کا مکالماتی تجزیہ یہ تھا کہ پپیتے کے پتوں میں ایسا مادہ ہے جو ڈینگی بخار کے وار کے سامنے دیوار بنتا ہے اور پلیٹ لیٹ بڑھانے میں معاون ہوتا ہے۔ علمی حلقوں میں جان پہچان رکھنے والے ڈاکٹر آصف جاہ نے تو پپیتے کا شربت بھی بنا لیا اور شاعر کالم نگار پروفیسر ناصر بشیر کے ایس ایم ایس کے ذریعے بیشتر اہل قلم تک پہنچا، پھر مریضوں سے ہمدردی کے حوالے سے ایک پیغام عزیز احمد کا عام ہوا کہ پپیتے کے پتے ان سے 0300-4356909 پر فون کر کے حاصل کریں۔ میڈیا کے ایک حصے میں جب پپیتے کے بارے میں یہ دلچسپ راز فاش ہوا کہ جس گھر میں پپیتے کا پودا ہو، ڈینگی بخار والے مچھر وہاں سے بھاگ جاتے ہیں تو ہمارے ہاں اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ ہمارے گھر سے وابستہ چار ڈاکٹر ہیں اور گھر میں پپیتے کے دو بوٹے ہیں مگر ہماری خوش فہمی کو بھی میڈیا کی خبریں لے اڑیں۔ ایک طرف تو رات کے اندھیرے میں کسی اللہ کے بندے یا بندوں نے گھر کے باہر لگے پانچ فٹ اونچے برچھا نما جنگلے کو پھلانگ کر پپیتے کے پتے توڑنے کی بجائے درمیان سے پودا ہی توڑ لیا اور ساتھ لے گئے۔ دوسری طرف گھر سے ملحقہ پڑوسی کو ڈینگی بخار نے آپکڑا۔ گویا پپیتے کے پودے سے ڈینگی ڈرے نہیں تھے بلکہ ادھر ادھر موجود رہے۔ اب ڈاکٹر لاکھ سمجھائیں کہ بھائی بندو ڈینگی بخار اور پپیتے کے پتوں کا آپس میں کوئی تعلق ہیں مگر کون سنتا ہے! ڈاکٹر صہیب حیدر میو ہسپتال میں ہیں اور عوامی ضد کے بعد ان کا تاثر یہ ہے کہ اب اگر لوگ پپیتے کے پتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو ہم منع نہیں کرتے کیونکہ اب یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے اور لوگوں کو پپیتے کے پتوں سے کبھی فائدہ ہو نہ ہو ایک تقویت یا حوصلے کا احساس ہوتا ہے جو ڈینگی بخار کے مریضوں کیلئے بہت ضروری ہے۔
تسلیم کہ پپیتے کے پتوں اور ڈینگی بخار میں تعلق کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے مگر دل کی تسلی کیلئے یہ بنیاد اب جڑ پکڑ چکی ہے کہ اس سے حوصلہ ملتا ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب آنے والے ڈینگی سیزن سے پہلے ایک بڑا کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے جہاں لاہور کی بڑی شاہراہوں پر کھجور کے درختوں کی قدآدم پنیری لگا کر شہر کو ایک نیا کلچر دیا ہے وہاں ابھی سے مختلف شاہراہوں پر، نہر کے دونوں اطراف گرین بیلٹ میں، جہاں جہاں ممکن ہو پپیتے کے پودے لگوا دیں۔ علاج نہ سہی حوصلہ ہی سہی! بعض اوقات حوصلہ بھی ماں کی دعا کی طرح طاقت میں بدل کر صورتحال کو بدل دیتا ہے۔ ڈینگی مچھر کی افزائش گاہوں کے خاتمے کی مہم اپنی جگہ سپرے کی اہمیت اپنی جگہ، یہ سب کچھ جس طرح اب جنگی بنیادوں پر ہو رہا ہے ممکن ہے اگلے برس ڈینگی مچھر کی پیداکردہ اتنی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر پپیتے کے پودوں کو ایک تحریک کی طرح ہر طرف لگانے سے ایک بڑا فائدہ ہوگا ہم خرما و ہم ثواب کی طرح پتوں کی ضرورت نہ بھی پڑی تو پپیتے کا پھل تو مزا دے گا ہی! لوگ پتے لیں یا پھل، وزیر اعلیٰ کے لئے دعاﺅں کا ایک نیا سلسلہ ضرور چل نکلے گا۔ آزمائش شرط ہے!

ای پیپر دی نیشن