مکرمی!اپر دیر میں بارودی سرنگ میں دھماکے کی وجہ سے چار فوجی افسران کی شہادت اور طالبان کی جانب سے اس اندوہناک واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد امن عمل کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ماضی میں بھی جب جب حکومت کی طرف سے کسی مفاہمتی عمل کی شروعات کی گئی کوئی نہ کوئی ایسی اشتعال انگیز کارروائی آڑے آتی گئی۔ جس کی بدولت مذاکرات کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا چلا گیا۔ چار فوجی جوانوں کی شہادت اور طالبان کی طرف سے فاٹا اور قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلانے کو مذاکرات سے مشروط کرنے کے بعد تو یوں لگتا ہے کہ یا تو طالبان مذاکرات کیلئے مخلص ہی نہیں یا پھر ان کی صفوں میں ایسے شرپسند عناصر گھس آئے ہیں جو حکومت کو اس مسئلے میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ امن عمل کو ایک موقع ضرور ملنا چاہئے لیکن اسے ہماری کمزوری ہرگز نہ سمجھا جائے کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حکومت رٹ کس طرح بحال ہونی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی طاقت کے استعمال کو آخری آپشن سمجھتے ہوئے ہی مذاکراتی عمل کو ترجیح دی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ حالات مزید کشیدہ ہوں۔ سول و فوجی قیادت اگر قیام امن کےلئے ایک پیچ پر اکھٹے ہیں تو طالبان کو بھی چاہئے کہ وہ بھی باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے تحفظات حکومت کے سامنے پیش کریں کیونکہ اشتعال اور عجلت میں اٹھایا جانیوالا کوئی بھی قدم کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ (کامران نعیم صدیقی لاہور)
”امن عمل کو دھچکا“
”امن عمل کو دھچکا“
Sep 23, 2013