اس ماہ کا بجلی کا بل ہاتھ میں پکڑتے ہی پورے جسم میں بجلی دوڑ گئی۔ اس زور کا جھٹکا لگا جیسے ہاتھ نے کاغذ کا ٹکڑا نہیں‘ ننگی تار کو پکڑ لیا ہے۔ بجلی کے بل سے پڑنے والے کرنٹ کی کسک ابھی تک محسوس کر رہا ہوں۔ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے بجلی کے بحران کا شکار ہے۔ اسکی بے شمار وجوہات وقتاً فوقتاً منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ وہ مافیا ہے جو بجلی بنا رہا ہے‘ اس مافیا کو خوف خدا نہیں کہ وہ پاکستانیوں کی رگوں سے خون نچوڑ کر تجوریاں بھر رہا ہے۔ اس مافیا کو روکنے ٹوکنے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ غور کریں کہ اس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔ حکومت و دیگر سیاستدان سب کے سب چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں۔ پاکستان کو‘ پاکستان کے اداروں کو مال غنیمت سمجھ کر نوچ رہے ہیں۔ عام آدمی جائے جہنم میں۔ انکی بلا سے۔ بجلی چند گھرانوں کی ملکیت ہے اور وہ منہ مانگے داموں بیچتے ہیں۔ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں گھرانے ایسے بھی دیکھنے کو ملے ہیں جنہوں نے بجلی کے بل ادا کرنے کی خاطر اپنے ماہانہ راشن میں کمی کر دی ہے۔ بجلی چوری کرتے ہیں کارخانہ دار‘ فیکٹری اونرز اور بھاری بھرکم بل بھرنا پڑتے ہیں عام شہری کو۔ بجلی کی قیمتیں آئوٹ آف کنٹرول کرنے میں واپڈا کی ہزاروں کالی بھیڑوں کا بھی کافی عمل دخل ہے جو رشوت لیکر بجلی چوری کرواتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ بجلی چوری کروانے میں واپڈا کے میٹر ریڈر ہی نہیں‘ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے افسر اور یونین کے نمائندے بھی شامل ہیں مگر قانون کا آہنی پنجہ انکی گردنیں دبوچنے سے قاصر ہے‘ معذور ہے۔ ٹیرف کے چکر نے بھی صارفین کو الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ مثلاً چند ماہ پہلے تک میرے میٹر سے 300 یونٹ چلتے تھے اور ان یونٹوں کا بل تقریباً 5/6 ہزار روپے آتا تھا‘ آج بھی میں 300 یونٹ ہی استعمال کر رہا ہوں مگر بل تین گنا زیادہ آنے لگا ہے۔ میں نے زیادہ بجلی استعمال نہیں کی بلکہ حکومت نے یونٹ کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ طرہ اس پر ناجائز قسم کے ٹیکس بھی لگا دیئے ہیں۔ کھلی بدمعاشی نہیں تو کیا ہے۔ پیداواری کمپنیاں تو حکومت پر پریشر ڈالتی ہیں کہ قیمتیں بڑھایئے‘ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ بدمعاشی کا حصہ نہ بنے۔ حکومت چوں چراں کئے بغیر قیمتیں بڑھا دیتی ہے‘ ٹیکس لگا دیتی ہے اور احساس نہیں کرتی کہ عام بندہ کیا کریگا‘ کس کی جان کا سیاپا کریگا۔
ہمارے یہاں ایک سوچ اور رائے یہ بھی پائی جانے لگی ہے کہ جو درمیانے درجے اور طبقے سے تعلق رکھنے والے صارف بجلی چوری کرتے ہیں‘ ٹھیک کرتے ہیں کیونکہ حکومتوں کی بے حسی نے ان بے چاروں کو مجبور کر دیا ہے کہ بجلی چوری کریں۔ حکومتی بے حسی دیکھ کر ہی گزشتہ چند ماہ سے میرا دل بھی چاہنے لگا ہے کہ بجلی چوری کرنا شروع کر دوں۔ عمران خان کہتا ہے کہ بجلی کے بل ادا نہ کرو۔ اسلام آباد کے دھرنے میں ایک ڈرامہ کرتے ہوئے اس نے بجلی کے بل جلا دیئے مگر یہ نہیں بتایا کہ بل ادا نہ کرنے کی صورت میں جب صارفین کے کنکشن کاٹے جائیں تو کیا کرنا ہوگا۔ عمران خان کی یہ کیسی عوام دوستی ہے کہ لوگوں کے مقدر میں مزید اندھیرے لا رہے ہیں۔ میں عمران خان سے پوچھتا ہوں کہ میں اس ماہ کا بجلی کا بل ادا نہیں کرتا‘ اگلے مہینے واپڈا / لیسکو والے آکر میرا کنکشن کاٹ دیتے ہیں تو پھر مجھے کیا کرنا ہوگا۔ یہاں آکر کپتان کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ جن مقاصد کے حصول کیلئے دھرنے شروع کئے گئے تھے‘ حاصل نہیں ہوسکے۔ حکومت برقرار ہے۔ شریف برادران نے استعفے نہیں دیئے۔ البتہ دھرنوں نے ملک کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچانے کی علاوہ دارالحکومت کی فضا کو بدبودار اور مکدرکر دیا ہے۔ ہزاروں طالبعلم بچوں کی تعلیم کا نقصان ہو گیا ہے۔ چینی صدر کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا ہے۔ اب یہ بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چھوٹے موٹے تصادم اور مڈبھیڑ کے بعد دھرنے لپیٹ دیئے جائیں گے۔
عمران اور علامہ کے دھرنوں کی وجوہات سے عام آدمی کا کیا لینا دینا۔ عام آدمی کا ایشو انتخابی دھاندلی اور اصلاحات نہیں بلکہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کے اصل ایشوز انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور یہ وہ ایشوز ہیں جنہوں نے پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ عمران اور علامہ اگر مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کیخلاف کال دیتے تو عوام کا ایک سمندر اُمڈ آنا تھا اور رزلٹ بھی دو دن کے اندر نظر آنا تھا۔ آج تو پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آتی ہے‘ اگر لوگ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کیخلاف میدان میں آجائیں تو یہی پارلیمنٹ عام لوگوں کے ساتھ نظر آئیگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر دھرنے آج یا کل لپیٹ دیئے جاتے ہیں تو حکومت کو چین کی بانسری نہیں بجانی چاہئے بلکہ اپنی تمام تر توجہ عوامی مسائل پر مرکوزکر دینی چاہئے کیونکہ میری چھٹی حس بہت جلد عوام کا سمندر سڑکوں پر دیکھ رہی ہے اور وہ دن شاید حکومت کا آخری دن ہوگا۔