تعلیمی ادارے خالی نہ کرانے پر سیکرٹری داخلہ‘ آئی جی کو شوکاز نوٹس‘ دھرنوں کے اجازت نامے بظاہر غیر قانونی ہیں : اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ دھرنوں کے اجازت نامے بظاہر غیرقانونی ہیں اگر ثابت ہو گیا کہ مجاز اتھارٹی نے دھرنوں کی اجازت نہیں دی تھی تو دونوں جماعتوں اور حکومت کے ذمہ داروں سے اضافی اخراجات وصول کرنے کا حکم دیں گے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ دھرنے کے شرکاءکو پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے احتجاج کی اجازت نہیں دی دفعہ 144اسلام آباد میں دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر لگائی گئی۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ انہوں نے دھرنوں کی اجازت دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت نہ ہونے کے باعث بظاہر دھرنوں کے اجازت نامے غیرقانونی ہیں۔ وزیراعظم، وزیر داخلہ کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کام میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ دھرنوں کے باعث اضافی اخراجات کا بوجھ تمام ٹیکس گزاروں پر کیوں ڈالا جائے؟ وفاق سمیت پی ٹی آئی، عوامی تحریک کے سربراہان بیان حلفی جمع کرائیں، عدالت کو مطمئن کریں کہ دھرنوں کی اجازت مجاز اتھارٹی نے دی تھی۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ اسلام آباد کے متعدد تعلیمی اداروں میں اب بھی پولیس اہلکار مقیم ہیں جہاں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز نہیں ہو سکا۔ آئی جی اسلام آباد کو 9ستمبر کے عدالتی حکم سے آگاہ کر دیا تھا کہ ایک ہفتے میں تعلیمی ادارے خالی کرائے جائیں، عدالت نے حکم عدولی پر سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے چار دن میں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا اور دفعہ 144کے تحت گرفتاریاں نہ کرنے کا حکم برقرار رکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پُرامن احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی مگر عدالت نے دیکھنا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ144 کا نفاذ آئینی ہے یا غیر آئینی؟۔ جب اسلام آباد میں دھماکے ہوئے اس وقت بھی انتظامیہ نے دفعہ 144 کا نفاذ نہیں کیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ

ای پیپر دی نیشن