یہ بات خاصی توجہ طلب ہے کہ امریکہ نائن الیون کے بعد گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے کسی نہ کسی شکل میں مسلم ممالک اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں مصروفِ جنگ ہے۔ اسی عرصے میں افغانستان (اگرچہ امریکہ وہا ں کامیابی اور فتح نام کی کوئی چیز حاصل نہیں کر سکا) کو تباہ و برباد کر دیا گیااور ابھی وہاں جنگ جاری ہے۔عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور وہاں فرقہ وارانہ فسادات کی بنیاد رکھ کر عراق کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا گیا، پاکستان کو سیاسی معاشی لحاظ سے تہہ و بالا کر دیا،یہاں سیاسی اور مذہبی تقسیم جیسے عوامل کو ہوا دے کر جاسوسی کا پورا ایک نیٹ ورک بچھا دیا جس میں اسرائیل اور بھارت اس کے سٹرٹیجک پارٹنر ہیں اور پاکستان اس وقت مکمل بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔(سیلاب اور IDP'Sمعاملات نے اس بد امنی میں مزید اضافہ کر دیا ہے جو پاکستان دشمن قوتوں کے نا پاک مقاصد کی تکمیل کے لیے مزید آسانیوں کا ذریعہ بن سکتی ہے)اور بھارت کو ہماری مغربی سرحدوں پر لا کر بٹھادیا گیا ہے جب کہ مشرقی جانب وہ پہلے ہی ایک گھات لگائے ہوئے دشمن کی طرح موجود تھا۔لیبیامیں قدافی کی حکومت ختم کر وا کے اُس کی جاندار معیشت کو بے جان کر دیا اور وہاں بھی خانہ جنگی ہو رہی ہے۔مصر میں اس کی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹوا کر وہاں السیسی جیسے فوجی سربراہ کو لا بٹھایا جہاں منتخب حکومت کے رہنماﺅں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور اُن کی جماعت اخوان پر پابندی عائد کر دی گئی جس کے نتیجے میں مصر بھی خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔شام کے حالات اِسی عرصے میں خانہ جنگی کی جانب رُخ اختیار کر کے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پہلے اُس کی مخالف قوتوں کو سپورٹ کیا جا رہا تھا اور پابندیاں لگائی جا رہی تھیں اب نئے حالات میں شام کی غاصب حکومت کے لیے قبولیت کا جواز پیدا ہوا جا رہا ہے اور امریکی پالیسی باالکل یوٹرن کی شکل میںبدلنے جارہی ہے تاکہ نئے ایشوز کے ساتھ نئی جنگ کا آغاز ہو سکے۔ اِسی عرصے میں یمن پر امریکی ڈرون حملے بھی جاری چلے آرہے ہیں۔الجزائر کی جمہوری حکومت کو بھی مصر کی جمہوری حکومت کی طرح قبول نہیں کیا گیا تھا۔الجزائر کی بے چینی یقینی ہے۔مسلم ممالک کے سیاسی معاشرے ایک ایسی بد نظمی اور تقسیم کا شکار ہوئے کہ لا اینڈ آرڈر ایک گھمبیر مسئلہ بن گئے ۔عوام اور حکمران طبقے کے درمیان تیزی سے فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اِس بے چینی اور تقسیم نے کچھ نئے مسائل کو جنم دے دیا ہے۔تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی عسکری تنظیمیں ایسی جہالت میں سرگرم عمل ہیں کہ اُن کے اہداف اور مقاصد ہی کا تعیّن نہیں ہو پا رہا۔ایک رائے یہ ہے کہ امریکہ خود ان تنظیموں کے پیچھے ہے اور اُن کی پشت پناہی کر رہا ہے تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے تو یہ بات زیادہ یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ امریکہ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے داعش جو کہ اب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لا چکی ہے اور ISجس کی نئی پہنچان بنی ہے کے بارے میں ابھی ٹھیک سے واضح نہیں ہو پا رہا کہ اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔
اگر امریکہ ان عسکری تنظیموں کی پشت پناہی نہ بھی کر رہا ہو تو مسلم ممالک میں ایسی تنظیموں کی موجودگی اور اِن جیسی تنظیموں کی مزید پیدائش کے لیے ساز گار ما حول کچھ ایسے عوامل کی نشان دہی بہر حال کر رہا ہے کہ مسلم سیاسی معاشرے ابھی طویل عرصے تک بے چینی ،بد امنی ،تقسیم اور انارکی کا شکار رہیں گے اور یہ جانکاہ عرصہ کئی حوالوں سے مزید بربادی کی راہ ہموار کرتا چلا جائے گا۔ایسے حالات کو پورے یقین اور صراحت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے کہ تمام اسلامی ممالک کسی نہ کسی ایسی خلفشار ار یلغار کی زد میںہیں جو اُن پر باہر سے مسلّط کی گئی ہے جس نے حکومتی نظاموں میں موجود اندرونی کمزوریوں اور خرابیوں کو بھی اُبھار کر سامنے رکھ دیاہے۔جن مسلم ممالک میں ایسی حالت اگر نہیں بھی ہے تو وہ سہمے ہوئے بیٹھے اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اُنھیں ڈر ہے کہ کسی نہ کسی وقت اُن کے ساتھ بس کچھ ہونے ہی والا ہے۔
یہ سب کچھ نائن الیون کے بعد سے شروع ہوا اور خرابی اور فساد کی ایک ایسی متعیّن منزل کی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے جس کی منزل کا تعین مسلم دشمن قوتوں نے کر رکھا ہے۔
کمال یہ ہے کہ اِن مسلم دشمن قوتوں کے منصوبے 20ویں صدی کے آخری عشرے ہی میں واضح ہو کر سامنے آگئے تھے ۔اِن منصوبوں کو مختلف ویب سائیٹس پر بھی دیکھا اور پڑھا جا سکتا تھا۔پھر نئی مسلم دنیا بلکہ تقسیم شدہ مسلم دنیا کے نئے نئے نقشے جاری کیے جاتے رہے جو مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کی دستر س میں رہے۔پھر21ویں صدی شروع ہوتے ہی اِن منصوبوں پر عمل درآمد کے مراحل کا آغاز ہو ا۔سب کچھ واضح نظر آرہا تھا سامنے دکھائی دے رہا تھا کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔افغانستان سے آغاز ہوا اور پھر پوری مسلم دنیا میں فساد پھیلتا چلا گیا۔
اب ایک نئی جہت سے نیا فساد تیارہے۔امریکی صدر اوباما نے آئی ایس (جو داعش ،آئی ایس آئی ایس اور آئی ایس آئی ایل کے ناموں سے بھی جانی جاتی ہے)کے ساتھ جو جنگی مہم جوئی کا منصوبہ بنایا ہے اُس کے مطابق وہ عرب اور یورپی ممالک کو اپنے ساتھ ملائیں گے۔عرب مسلم حکمرانوں کو ساتھ ملا کر جنگ کرنے سے وہ بربادی جائز اور حلال ہو جائیگی جو صرف یورپی ممالک اور امریکہ کے ہاتھوںمسلم خطّے کی ہونے جارہی تھی۔امریکہ داعش کی پشت پناہی کر رہا ہے یا نہیں یہ بحث اب غیر ضروری ہو گئی ہے کیونکہ امریکہ اس کے پیچھے ہو یا نہ ہو مسلم خطّے اور مسلم عوام کی تباہی و بربادی دونوں صورتوں میں ایک یقینی نتیجے کے طور پر سامنے نظر آرہی ہے۔
گذشتہ ماہ صدر اوبا ما کے عراق پر ہوائی حملے کرنے کا اختیار مل چکا ہے اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع تراتحاد کی قیادت کرے گا۔اوباما نے کہا ہے ”میں آئی ایس آئی ایل کے خلاف نہ تو شام سے کاروائی کرنے سے ہچکچاﺅں گا اور نہ ہی عراق میں۔یہ میر ی صدارت کا بنیادی اصول ہے۔اگر تم امریکہ کو دھمکی دو گے تو تمہیں دنیا میں کہیں محفوظ پناہ گاہیں نہیں ملیں گی“۔
امریکہ کو اِس مہم جوئی میں مسلم حکمرانوں کو ساتھ ملانے کی ضرورت اِس لیے ہو گی تاکہ اِس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف مسلم خطے اور مسلم عوام کو تحفّظ کا نام دے کر بربادی کی جاسکے اور مسلم عرب حکمرانوں کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ضرورت اِس لیے ہو گی کیونکہ وہ کسی بھی حقیقی خطرے سے خود نبٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ گویا یہ اپنے ہی دشمن کو دعوت دینے کے مترادف ہے کہ ”آﺅ ہمیں برباد کرو“۔
اِس بربادی کا ایک اور پہلو ملاحظہ ہو ۔امریکی سیکرٹر ی خارجہ جان کیری نے ابھی حال ہی میں عراق کے نئے وزیراعظم حیدر العبادی (جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں)سے ملاقات میں یہ طے کیا ہے کہ عراقی نیشنل گارڈز کے نام سے نئی فورس تشکیل دی جائے جو عراقی سُنّی فائیڑز پر مشتمل ہو اور اُنھیں داعش کے خلاف لڑایا جائے جو کہ پہلے ہی سنی عقیدہ کی حامل ہے گویا پہلے شیعہ سُنّی کو آپس میں لڑایا گیا اور اس پہلو سے یہ لڑائی تا حال جاری ہے۔اب ایک نئے محاذ پر سُنیّوں کوسُنّیوں سے لڑایا جائیگا تاکہ اس اکثریت کو باھمی قتل وغارت گری کے ذریعے کمزور کر کے طاقت کے توازن کا اِس سطح پر لایا جاسکے جو مستقبل میں کسی نئی حکمت علمی میں مدد گار ہو سکے۔لہٰذا نیتجہ کچھ یوں نکلے گا کہ شیعہ سُنّی سے لڑیں گے۔سُنّی سُنیوں سے لڑیں گے۔دونوں جانب مسلمان قتل ہوں گے اِس قتل و غارت گری میں کفارومشرکین کے ساتھ مسلمان حکمران اور اُن کی فوجیں ان کے ساتھ ہوں گی۔اِس صورت حال کو اِن لفاظ میں بیان کیا جاسکتاہے۔
”آﺅ ہمیں برباد کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں“