پاکستان میں بار بار سیلاب کیوں آتے ہیں؟

Sep 23, 2014

راجہ افراسیاب خاں

پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں بارش اور سیلاب کے پانی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ لاکھوں لوگ اس پانی کے طوفان سے متاثر ہوئے ہیں۔ لوگوں کی جائیدادیں سیلابی پانی کی تباہی میں آچکی ہیں۔ ان گنت پاکستانی مرد‘ عورتیں‘ بچے سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ زندہ لوگ جو پانی میں گھر چکے ہیں‘ وہ ”پانی‘ روٹی“ کے محتاج بن گئے ہیں۔ کسانوں کے قیمتی جانور بھی سیلاب میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں اس طرح کے کئی ایک تباہ کن سیلاب آچکے ہیں۔ کیا ان سیلابوں کوکامیابی سے روکا جا سکتا ہے؟ میرے نزدیک آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بالکل ممکن ہے۔ یہ سیلابی پانی کشمیر کی پہاڑیوں سے گزر کر پاکستان کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے اور وہاں تباہی مچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یعنی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے رکھا ہے۔ انسان سوچ کے بے حساب خزانوں سے مالامال ہے۔ اہل مغرب نے اسی سوچ کے خزانوں سے فائدہ حاصل کرکے اپنے ہر قسم کے مسائل کو ایک ایک کرکے حل کر دیا ۔ گویا انسان نے تو سمندروں کی لہروں کو بھی اپنے استعمال میں لا رکھا ہے۔
تقریباً ہر سال برسات ہوتی ہے۔ دریاﺅں میں سیلاب آجاتے ہیں۔ یہی سیلابی پانی ہرے بھرے کھیتوں کو اجاڑ دیتا ہے۔ انسان اور حیوانوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ پانی تو زندگی کی سب سے بڑی ضرورت اور نعمت ہے۔ اس کے بغیر زندگی ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہے۔ قدرت نے جہاں بے شمار میدان بنائے ہیں‘ وہاں آسمانوں کو چھوتے ہوئے پہاڑ بھی بنا رکھے ہیں۔ ان پہاڑوں میں سیلابی پانی کو کامیابی سے روکا جا سکتا ہے۔ اسی پانی سے بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ یہی پانی پھر اراضیات کو سیلاب کرتا ہے اور ان سے بے شمار قیمتی اشیاءخوردنی پیدا ہوتی ہیں۔ طرح طرح کے پھل کھانے کو ملتے ہیں۔ قانون قدرت کے مطابق پانی اونچائی سے نیچے کی طرف آتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں ان گنت چھوٹے بڑے ڈیمز بنا کر سیلاب کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ ذخیرہ شدہ پانی میں تباہی سے محفوظ رکھے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس پانی کو انسان اور حیوان پی سکیں گے۔ فالتو پانی سے اراضیات کی آبپاشی ہوگی۔ پانی کے بغیر کامیاب زراعت ممکن نہ ہے۔ پانی ہوگا تو یہ قیمتی فصل چاول اگ سکے گی۔ فالتو پانی کو گھروں اور کھیتوں میں کامیابی سے جمع کیا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف عام آگاہی کی ضرورت ہے۔ ہر گھر میں بارش کے پانی کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ہر گھر میں ایک ایک پانی کا پختہ ڈیم بنایا جائے جس میں بارش کا فالتو پانی جمع ہو۔ اسی پانی کو بعد میںضرورت میں لایا جا سکتا ہے۔ ویسے تو ہر گھر میں پانی کے ٹینک ہوتے ہیں۔ یہ ٹینک زمین دوز ہونگے انتہائی پختہ ہونگے۔ گھر کا سارا بارش کا پانی اس میں جمع ہوگا۔
 کالاباغ ڈیم کے جھگڑے کو خوش اسلوبی سے سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی خواہش کے عین مطابق تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی تمام تر انتظامیہ چھوٹے صوبوں پر مشتمل ہو۔ وہ اپنی مرضی سے ڈیم کی اونچائی کا تعین کر سکیں گے۔ میرے خیال میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ میں رہنے والے پاکستانیوں کو ہوگا۔ ان کے خشک دریا زندہ ہو جائیں گے۔ نئی نہریں وہاں تعمیر ہونگی۔ گھر گھر خودبخود پانی پہنچ جائے گا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر سے کئی کئی میل تک زیرزمین پانی آگیا ہے۔ جگہ جگہ نئے پانی کے چشمے اُبل پڑے ہیں۔ وہ علاقے جہاں پانی کی بوند بوند کو لوگ ترستے تھے آج ان کے گھروں میں پانی کے نلکے اور ٹیوب ویلز لگ چکے ہیں۔ اس طرح سندھ کے ویران علاقے گل و گلزار میں تبدیل ہو جائینگے۔ پاکستان کے پسماندہ علاقے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔ میں یہ باتیں بغیر کسی معقول ثبوت کے پیش نہیں کر رہا۔ علم جغرافیہ میرا ایک پسندیدہ مضمون رہا ہے۔ اب بھی میں اس موضوع پر گہرائی میں جا کر سوچ و بچار کرتا رہتا ہوں۔ قدرت نے ہمیں دنیا کے بڑے بڑے پہاڑوں سے نواز رکھا ہے۔ جہلم شہر اور دیگر وسیع علاقے ہمیشہ دریائے جہلم میں طغیانی سے تباہ و برباد ہوتے رہتے تھے۔ آج منگلا ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف ہمیشہ کیلئے جہلم اور دیگر شہر محفوظ ہو گئے ہیں بلکہ ڈیم سے بجلی بنتی ہے۔ جو ہمارے شہروں کو روشن کر رہی ہے۔ کابالا ڈیم بناﺅ گے تو ہمارا پیارا سندھ اور دیگر علاقے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیلاب کی تباہی سے محفوظ ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ سرزمین سندھ کے غیرآباد علاقے آباد ہونگے۔ہماراپاکستان ترقی کی منزل طے کرتا چلا جائے گا۔ سندھ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا کے لوگ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ فضول بحث میں ہم بہت وقت ضائع کر چکے ہیں۔ اب ہمارے پاس مزید وقت نہ رہ گیا ہے۔ پاکستان پارلیمنٹ اسی طرح کے مشکل مسائل کو حل کرنے کیلئے معرض وجود میں آئی ہے۔ پارلیمنٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جو ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بڑی حد تک محفوظ بنا سکتا ہے۔ افسوس سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی قوم کو سوائے مایوسی کے کچھ نہ دیا ہے۔ پارلیمنٹ اپنے اگلے اجلاس میں کالاباغ ڈیم اور دیگر ڈیمز پر بحث کا آغاز کرے اور کالاباغ ڈیم کو قابل عمل ڈیم بنائے۔ اس ڈیم سے متعلقہ تمام خیالی خدشات کو ایک ایک کرکے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
 ہمارے حکمران سوئے ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں کہ وہ کب بیدار ہونگے۔ پانی جب سر کے اوپر سے گزر جائیگا تو پھر انکے جاگ جانے سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ حکمرانوں کے بُرے دن آچکے ہیں۔ وہ اپنے منشور پر عمل نہ کر سکے ۔ لوگ ان سے سخت مایوس ہو چکے ہیں۔ ہر شہری کا دل و دماغ غصے کی لہر میں آچکا ہے۔ اللہ ہمیں اور پاکستان کو محفوظ رکھے۔ آمین۔

مزیدخبریں