مباہلہ - نصرانےت پر اسلام کی عظےم فتح
تحرےر: آغا سےد حامد علی شاہ موسوی
سرپرست اعلیٰ سپرےم شےعہ علماءبورڈ و سربراہ تحرےک نفاذ فقہ جعفرےہ
نصاریٰ نجران کے ساتھ مباہلہ کا واقعہ 24 ذوالحجہ 9 ہجری کو پےش آےا اور اس بنا پر اسے عےدکے مترادف قرار دےا گےا کہ ےہ دن نصرانےت پر اسلام کی عظےم فتح، کاذبےن کی شکست اور صادقےن کی سرفرازی کا دن ہے۔ سورہ آل عمران کی ےہ آےت اس تارےخی واقعہ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
ترجمہ :پھر بھی جو آپ سے اس بارے جھگڑا (اور حجت بازی) کریں (حق اور حقیقت کو واضح کر دینے والے) اس علم کے بعد، جو کہ پہنچ چکا آپ کے پاس، (آپ کے رب کی جانب سے) تو ان سے کہو کہ آو¿ (ہم اور تم اس بارے آپس میں مباہلہ کر لیتے ہیں، اسی طرح کہ) ہم اور تم خود بھی (میدان میں) آتے ہیں، اور اپنے اپنے بچوں،خواتےن اور نفوس کو بھی بلا لاتے ہیں، پھر ہم سب مل کر (اللہ تعالیٰ کے حضور) عاجزی و زاری کے ساتھ دعا (و التجا) کرتے ہیں، کہ اللہ کی لعنت ہو ان پر، جو جھوٹے ہوں۔ (سورہ آل عمران آےت 61)
یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے ےہی آےت حسنےن کرےمےنؓ کے فرزندان رسول ہونے پر نص قرآنی ہے اور پنجتن پاک کا تعارف ہے۔”مباہلہ“ کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں( الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407)۔ "بہلہ اللہ" کے معنی ہیں کہ اللہ اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔( الزمخشری، محمود، 1415 ق، ج1، ص: 368) دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی میں اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ دوسرا کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔( طبرسی، مجمع البیان، انتشارات ناصرخسرو) ےعنی دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔
نصاریٰ (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ حضرت عیسیٰ ابن مرےمؑ کے بارے میں اسلامی عقےدہ سے متفق نہ تھے جس کے مطابق وہ اللہ کے برگزےدہ نبی اور پارسا ہستی تھے ۔پیغمبر اسلام نے جو خطوط سربراہان مملکت کو روانہ کئے تھے ان کے ضمن میں ایک خط آپ نے نجران کے عےسائی رہنما ابو حارثہ کو بھی لکھا تھا۔ جس میں آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ ابو حارثہ نے نجران کے پڑھے لکھے اور بزرگ عمائدےن جیسے شرحبیل، عبداللہ بن جبّار بن فیض غور و فکر اور مشورہ کے لئے بلائے۔ جنہوں نے ےہ طے کےا کہ نصاریٰ کی طرف سے کچھ ہوشمند اور علم و عقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدینہ میں محمد بن عبد اللہ کے پاس جائیں اور ان سے اس سلسلہ میں بحث و مناظرہ کریں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔ اسی بناءپر ساٹھ افراد کی کمےٹی تشکےل دی گئی جن میں سے ان کے عظیم علماءسےد، عاقب، ابو حارثہ اور ایہم بھی تھے ۔
اہل نجران کا وفد بڑی شان و شوکت کے ساتھ سونے و جواہرات کے زےورات سے آراستہ فاخرانہ لباس پہنے مدےنہ پہنچا تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف جذب کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔ جب ےہ وفد بارگاہ رسالت مےں حاضر ہوا۔ تواسوہ حسنہ کے مالک رسول نے نجران سے آئے افراد کے ساتھ بے رخی کا اظہار کےا اور ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی،جو شرکائے وفد کےلئے حےرت انگےز تھا۔ علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور بے توجہی کا سبب نہ جان سکے جس پرچند لوگ انھیں حضرت علیؓکے پاس لے گئے اور تمام حالات سے انہیں آگاہ کیا حضرت علی ؓ نے علمائے نجران سے فرمایا: ”تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبرکی خدمت میں عام لوگوں کی طرح جاو¿انہوں نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؓ کی بات مانتے ہوئے اےسا ہی کےا۔ جس پر پیغمبر اسلام نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔اس سے ےہ ثابت ہوا کہ اسلام کی نظر مےں ظاہری جاہ و جلال کی چنداں اہمےت نہےں ۔
وفد کے سربراہ ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، اس بناءپر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
پیغمبر اکرم: -جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں۔
عےسائی عالم -اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
پیغمبر اکرم: -اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسیؑ کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کا گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔
عےسائی عالم - اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسیؑ مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، کوڑھ مےں مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔
پیغمبر اکرم: - آپ نے عیسیؑ کے جن معجرات کو گنوایا وہ صحیح ہیں لیکن ان سب اعزازات سے انہیں خدائے واحد نے نوازا تھا اس لئے عیسیٰؑ کی عبادت کرنے کے بجائے اُسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے۔
پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا اور اس دوراں کارواں میں شریک شرحبیل نے خاموشی کو توڑ ا اور کہاعیسیٰؑ، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا وحی میں جواب فرمایا:اِنَّ مَثَلَ عِی±سٰی عِن±دَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہ¾ مِن± تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ¾ کُن± فَیَکُو±نُ ۔ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ ؑکی مثال ہو بہو آدم ؑ کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا پس وہ ہو گیا(آل عمران59)
جب ےہ سنا تو نصاریٰ کی زبانےں گنگ ہو گئےں ان پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تکنے لگے جو خاموشی سے سر جھکائے بےٹھا رہااور کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔نصاریٰ نجران آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی اور کٹ حجتی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں اس پر پےغمبر اسلام نے وحی الہی کے تحت عےسائےوں کو دعوت دی کہ دونوں فرےق اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے۔
اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے۔علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجیل و توریت پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز کرکے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور پیغمبر اکرم کا انتظار کرنے لگے سید اور عاقب (جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے) بھی اپنے بیٹوں کو لے کر پہنچ گئے۔ دوسری جانب رسول خدا مباہلے کو روانہ ہوئے انہوں نے امام حسنؓ کا ہاتھ پکڑا امام حسینؓ کو گود میں اٹھایاآنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدة النساءالعالمین حضرت فاطمہ زہرا ؓ چل رہی تھےں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کے عم زاد بھائی علی ابن ابی طالبؓ تھے۔
جب نصاریٰ نے ان بزرگ ہستےوں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمدکے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ:ان کے چچا زاد بھائی ہیں؛ وہ دو بچے ان کے فرزند ہیں ان کی بیٹی سے؛ اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ؓ ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرتمباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔
ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمدکچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیائؑ مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔
سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟
ابو حارثہ نے کہا: اگر محمدبر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرا¿ت نہ کرتے؛ اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ شرحبیل (عیسائیوں کا ایک عظیم اور بڑا عالم ) نے کہاکہ: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاو¿گے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرتکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں۔ چنانچہ آنحضرتنے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتاً دینا پڑیں گے اور آپخود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرت نے صلح نامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔
اےک رواےت کے مطابق جوصلح نامہ لکھا گیا اس مےں ےہ نکتہ بھی شامل تھا کہ اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔ جبکہ نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ نذرانے اور عطیات لے کر رسول اللہکی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے۔مباہلہ کی عظمت و رفعت صحابہ کرام کی نظر مےں کس قدر زےادہ تھی اس کا اندازہ اس حدےث نبوی سے لگاےا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہےں کہ جو تےن سعادتےں حضرت علی ؑ کو حاصل ہوئےں ان مےں سے اےک کا بھی مےرے لئے ہونامےرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بہتر ہے،غزوہ کے موقع پر نبی کا حضرت علی کو وہی نسبت دےناجو ہارون ؑ کو موسی ٰ ؑ سے تھی۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،