گھنٹیاں

جس طرح دنیا کی مختلف زبانوں میں گھنٹیوں کے مختلف نام ہیں اسی طرح مختلف ممالک میں گھنٹیوں کی مختلف اقسام اور کام ہیں۔ ہم نے بچپن میں جو گھنٹیاں دیکھیں اُن میں ایک گھنٹی سائیکل کی گھنٹی تھی ۔ موبائل فون جب عام ہوا تو انگوٹھے کا استعمال بڑھ گیا جبکہ موبائل فون کی ایجاد سے پہلے انگوٹھے کا سب سے زیادہ استعمال سائیکل کی گھنٹی بجانے کے لیے ہوتا تھا ۔ تب سائیکل سوار اپنے راستے میں آنے والوں کو ہٹانے کے لیے گھنٹی بجاتا تھا ۔ اب لوگوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے مختلف حربے بلکہ ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
دوسری گھنٹی جس سے اوائل عمر سے واسطہ پڑا وہ تھی ڈور بیل ۔جہاں بجلی نہیں ہوتی تھی یا ڈور بیل نہیں لگی ہوتی تھی تو گھنٹی کا کام دروازے کی کنڈی سے لیا جاتا ۔ کنوئیں کے بیل کے کام سے متاثر فلاسفر نے بیل کی گھنٹی کا سبب پوچھا۔ کسان نے بتایا گھنٹی کی آواز بند ہو جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بیل رُک گیا ہے ۔فلاسفر نے کہا اگر بیل صرف گردن ہلاتا رہے تو ؟ کسا ن نے کہا یہ بیل ہے فلاسفر نہیں۔ دوسرے گھروں کی گھنٹیاں بجانا بچوں کا مرغوب مشغلہ ہوا کرتا تھا ،خواہ اس شوق کی بجا آوری میں مار ہی کیوں نہ پڑ جائے ۔ بعض گھنٹیوں میں کرنٹ ہوتا جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ اہل خانہ کو گھر بیٹھے معلوم ہو جاتا کہ باہر کون آیا ہے،چیخ کی آواز سن کر ۔ ایک اور گھنٹی دل پر جس کے صوتی اثرات وقت کے ساتھ بد ل جاتے وہ تھی سکول اور کالج کی گھنٹی ، جو صبح ناگوار اور چھٹی کے وقت خوشگوار لگتی ۔پھر ایک گھنٹی وہ تھی جسے جرسِ کارواں کہتے جو قافلے کی روانگی کی اطلاع دینے کے لیے بجائی جاتی ۔ پھر ایک اور گھنٹی ہے جسے دیکھنے کے لیے ہماری آنکھیں ترس گئیں ، یہ وہ گھنٹی ہے جو بلی کے گلے میں باندھی جاتی ہے ۔ ہم نے ہر بلی حتا کہ بِلے کے گلے میں بھی جھانک کر دیکھا مگر ہمیں یہ گھنٹی نظر نہ آئی ، ان بلیوں کے گلے میں جن کے خواب میں چھیچھڑے ہوتے ہیں اور ان بلیوں اور بلوں کے گلے میں بھی ہم نے دیکھا جو دودھ کی رکھوالی پر مامور ہیں ، ہمیں وہ گھنٹی کبھی دکھائی نہیں دی ۔
گھنٹی مصنوعی آواز پیدا کرنے کا آلہ ہے ۔ قلعی اور تانبے کو ایک خاص نسبت سے مرکب کرنے سے گھنٹی بنتی ہے ۔ بڑ ی گھنٹیاں اکثر برنج کی ہوتی ہیں اگرچہ چھوٹی گھنٹیاں چاندی اور پیتل کی بھی ہوتی ہیں۔ مرکب دھات سے جو گھنٹی بنتی ہے وہ ضرب سے ٹوٹتی نہیں۔ عیسائیوں کے گرجوں اور عبادت گاہوں پر جو گھنٹیاں لگی ہوتی ہیں وہ بہت بڑی بھی ہوتی ہیں اور سریلی بھی۔ دنیا کی سب سے بڑی گھنٹی ماسکو میں زارِ روس کے محل کریملن میں بطور عجوبہ ءروزگار محفوظ ہے ۔ یہ ”شاہ گھنٹی“ کہلاتی ہے جس کی بلندی 20فٹ7انچ اور قطر 22فٹ8انچ اور وزن 202ٹن ہے ۔ دنیا کی دوسری اور تیسر ی بڑی گھنٹیاں بھی روس ہی میں ہیں۔ ان میں سے ایک سینٹ پیٹرز برگ میں 171ٹن اور دوسری ماسکو میں 110ٹن وزن رکھتی ہیں۔ انگلستان میں سب سے بڑی گھنٹی سینٹ پال کے گرجے میں ہے جسے 1881ءمیں ڈھالا گیا۔ دنیا کی دیگر بڑی گھنٹیوں میں چین کی دو گھنٹیاں شامل ہیں۔ ان میں سے ایک 53ٹن، چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اور دوسری 22ٹن وزنی گھنٹی چین کے سابق دارالحکومت نانکن میں ہے ۔ کولو ن واقع فرانس کے گرجا کی گھنٹی بھی 22ٹن ہے ۔ لندن کے ویسٹ منسٹر کے گرجے کی گھنٹی کا وزن ساڑھے 13ٹن ہے ۔ جب ہم پڑھتے تھے ،گورڈن کالج راولپنڈی کی گھنٹی ، باوجود کوشش ، جسے ہم دیکھ نہ پائے مگر اس کی اور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عزیز محمود زہدی مرحوم کی آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔ گورڈن کالج اور راولپنڈی سے یاد آیا گھنٹی کو ”ٹلی“ بھی کہا جاتا ہے ۔ ایک گھنٹی لینڈ لائن فون کی بھی ہواکرتی تھی ۔وہ فون جو وزیر کی سفارش پر بھی نہیں لگتا تھا اب
پھرتا ہے میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اب اس کی جگہ سیل فون کی گھنٹی نے لے لی ہے ، ہر نماز سے قبل امام کو کہنا پڑتا ہے کہ موبائل فون کی گھنٹی بند کرلیں ، اس کے باوجود کوئی نہ کوئی گھنٹی بج پڑتی ہے ۔ مندرجہ بالا تمام گھنٹیوں سے زیادہ خطرناک جو گھنٹی ہے وہ ہے ”خطرے کی گھنٹی ” یہ گھنٹی سب سے زیادہ جس سر پر بجتی ہے وہ ہے جمہوری حکومت کا سر۔ کبھی اس پر 58-2Bکے خطرے کی گھنٹی بجتی تھی تو کبھی مارشل لاءکی ۔ کبھی جمہوری حکومت کے سر پر تحریک عدم اعتماد کے خطرے کی گھنٹی بجتی تو کبھی اپوزیشن کے دھرنے کی ، کبھی کرپشن اور کرپشن سے حاصل کردہ دولت کے پکڑے جانے کے خطرے کی گھنٹی ،کبھی امریکہ بہادر کی ناراضی اور کبھی عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے کرپشن کے الزامات پر نا اہل قرار دیئے جانے کے خطرے کی گھنٹی۔
بھولے کے سر پر بھی ایک امتحان آ پڑا۔ بھولے نے کچھ پرچوں کے جواب لکھے ہی نہیں اور کچھ کے غلط لکھ آیا حالانکہ اُسے تمام سوالوں کے درست جواب معلوم تھے ۔ بھولا کمرئہ امتحان سے نکلتے ہی بیان دیتا کہ میرے سر پر فیل ہونے کے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کیونکہ ممتحن میرے خلاف ہے ۔ ممتحن کے پاس بھولے کو فیل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ اب بھولا گلی گلی شو مچا رہا ہے ”مجھے کیوں فیل کیا“ ۔ میں نے حیران ہوکر بھولے سے پوچھا کہ جب تمہیں سب پرچوں کے تمام سوالوں کے جواب معلوم تھے تو پھر تم نے غلط جواب کیوں لکھے۔ بھولے نے کہا کہ اب تو صرف فیل ہوا ہوں ناں ، اگر میں پرچوں کے درست جواب دیتا تو مجھ پر ”پرچہ“ ہو جاتا۔
جب جمہوراور جمہوری حکومتوں کے سر پر اس قدر خطرے کی گھنٹیاں بجتی ہیں تو جمہوری لوگ اپنے گھر کو کیوں ٹھیک نہیں کر لیتے ۔ عوامی عدالت سے جب انہیں پذیرائی اور عزت افزائی نصیب ہوتی ہے تو وہ ناجائز دولت کی خاطر کیوں” عزتِ سادات“ کو تھال میں رکھ کر نیلام کرتے ہیں۔ وہ اس انمول عزت پر قناعت کرنے کی بجائے پاکستان کی بھوکی ننگی عوام کو کیوں لوٹ کر کھاتے ہیں؟
ذکر اس غیرت مریم کا جب آتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساﺅں میں

ای پیپر دی نیشن