صورتحال روز بروز گھمبیر اور خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ جس دن سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر عہدے سے برطرف کیا گیا ہے، اُس دن سے آج تک حالات مزید خرابی کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ ایک طرف نیب کے ذریعے نواز شریف اور اُن کی فیملی کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اب سانحہ ماڈل ٹا¶ن کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کے احکامات بھی صادر فرما دیئے گئے ہیں۔ اپنی شریف گھرانے میں ابھی تک میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز بچے ہوئے تھے، اب ان کو دبوچنے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں اور تیسری جانب سابق صدر پرویز مشرف نے آصف زرداری کو بینظیر اور مرتضیٰ بھٹو کا قاتل قرار دے کر نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
اس ساری صورتِ حال سے عمران خان، طاہر القادری، چودھری برادران اور جماعتِ اسلامی بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ابھی شاید انہوں نے اس منظر کے پس منظر کی طرف توجہ نہیں کی۔ اگر وہ اس پر ژرف نگاہی سے غور کریں تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جمہوریت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے۔ ان حالات پر سب سے اہم بیانیہ چودھری شجاعت کا ہے کہ ”مستقبل قریب میں قومی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے اور آئندہ برس الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے“۔ گویا چودھری شجاعت اس بات کی گہرائی تک پہنچ گئے ہیں کہ پسِ پشت کیا کھیل جاری ہے اور اس کھیل کا مقصد کیا ہے؟۔
حلقہ این اے 120 کے الیکشن میں بیگم کلثوم نواز کی جیت سے یہ اُمید پیدا ہو گئی تھی کہ جمہوریت اور سیاسی سرگرمیاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں گی۔ لیکن نیب کی طرف سے حدیبیہ پیپلر ملز کیس دوبارہ کھولنے اور سانحہ ماڈل ٹا¶ن کی رپورٹ عام کرنے کے احکامات نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ چودھری نثار نے مسلم لیگ (ن) میں رہتے ہوئے اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس موقع پر میاں نواز شریف کو چودھری نثار جیسے مخلص دوستوں کی حوصلہ افزائی اور ساتھ کی ضرورت ہے۔
لیکن چودھری نثار الٹا حکومت کے کان اور ٹانگیں کھینچنے میں لگ گئے ہیں۔ ان کی اس روش سے پارٹی میں بھی شکست و ریخت کا عمل شروع ہو سکتا ہے بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) میں چودھری نثار کا الگ ایک دھڑا بن چکا ہے جو ”مناسب وقت“ پر اپنی علیحدگی کا اعلان کرے گا۔ پارٹی اراکین کی طرف سے بھی چودھری نثار کو شوکاز نوٹس بھیجنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ چونکہ چودھری نثار کو مریم نواز کو لیڈر ماننا منظور نہیں۔ لہٰذا وہ مائنس مریم نواز پارٹی چاہتے ہیں، جس پر میاں نواز شریف راضی نہیں۔ تو پھر سیدھے سیدھے چودھری نثار مائنس نواز شریف پارٹی کا اعلان کر دیں اور اپنی الگ پارٹی بنا لیں! لیکن میں ایک بات دعوے اور وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ان حالات میں جو رُکن بھی مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر جائے گا، وہ آئندہ الیکشن (وہ جب بھی ہوں) میں عوام کی ٹھوکروں میں ہو گا۔ اور بُری طرح مسترد کر دیا جائے گا۔ کیونکہ لوگ اس وقت میاں نواز شریف کو جنون کی حد تک بلکہ ضِد کے طور پر چاہنے لگے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت این اے 120 کا حالیہ الیکشن ہے۔ اس لئے چودھری نثار کو ہر وقت اور ہر جگہ سچ بولنے کا جو خبط ہے۔ اس پر قابو پانا ہو گا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ: ”وہ جھوٹ جس سے امن و امان قائم ہو، اُس سچ سے بہتر ہے جس سے فتنہ و فساد پھیلے“۔ اس لئے چودھری نثار کو فتنہ پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ وہ آہستہ آہستہ دوسرے عمران خان بنتے جا رہے ہیں۔
پرویز مشرف نے جو سیدھے الفاظ میں آصف زرداری کو بینظیر اور مرتضیٰ بھٹو کا قاتل کہہ دیا ہے، تو یہ بات نظر انداز کرنے والی نہیں۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیں۔ اور جواب میں آصف زرداری نے پرویز مشرف کو قاتل قرار دے دیا ہے۔ اب یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ بینظیر قتل کیس کی مکمل تفتیش کے احکامات جاری کرے اور اصل قاتلوں کو بے نقاب کرے اور انہیں قرار واقعی سزا بھی دے۔
میاں نواز شریف اور اُن کی فیملی کو عدالتی کارروائیوں سے گھبرا کر بھاگنا نہیں چاہئے۔ بلکہ ملک وہ رہ کر تمام مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہ کسی ایک فرد کی نہیں، ایک پارٹی کی نہیں، بلکہ جمہوریت کی بقا کی جنگ ہے۔ جسے صرف اور صرف شریف فیملی ہی لڑ سکتی ہے۔ اگر شریف فیملی گھبرا کر اور پریشان ہو کر ملک چھوڑ گئی تو مسلم لیگ (ن) اور شریف فیملی کی سیاست کا جنازہ نکل جائے گا۔ اور یہ ملک کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہو گا، پاکستانی عوام کے ساتھ انتہا درجے کی بے وفائی ہو گی۔
اگر جمہوریت کی بقا کے لئے میاں نواز شریف کو جیل بھی جانا پڑے، تو انہیں اس کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ کیونکہ سونا جب تک آگ میں پکتا نہیں، کُندن نہیں بن سکتا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو جمہوریت کی بقا کے لئے اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے اس آگ کے دریا کو عبور کرنا ہو گا، ورنہ لوگ کہیں گے کہ شریف فیملی نے پیسہ اکٹھا کیا اور سزا کے خوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔