معاشی ترقی کا راز

گذشتہ سو سالوں میں قوموں کی ترقی خصوصاً معاشی ترقی کا جائزہ لیں تو ان کی ترقی میںبنیادی اورکلیدی اہمیت فلسفہ خودی کو حاصل ہے جو ان کی ترقی میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلم امہ کی حقیقی فلاح اور اصل ترقی کے لئے فلسفہ خودی کو بیان کیا تھا اور اس کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت پر بھرپور زور دیا تھا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ خودی کا فلسفہ کیا ہے اور آپ کے ذہن میں کہاں سے اس کا خیال آیا تو انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کے انتیسویں سپارے میں سورت حشر کے آخری رکوع میں اس کا ذکر ہے اور میں نے وہیں سے فلسفہ خودی لیا ہے۔ اسی لئے آج جو قومیں اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں وہ دنیا میں ہر شعبے میں سرخرو بھی ہورہی ہیں اور طاقتور بھی ۔ مگرہمارے لئے افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں تو اللہ رب العزت نے فلسفہ خودی سے چودہ سو سال پہلے روشناس کرایا اور سوسال پہلے پاکستان کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹرعلامہ اقبال نے اس کی تشریح قوم کے سامنے پیش کی لیکن ہم نے اس پر عمل کرنا تو درکنار سوچنے اوردیکھنے کی ضرورت بھی گوارہ نہ کی مگر جن قوموں نے اس پر عمل کیا وہ قدرتی وسائل نہ رکھنے کے باوجود آج دنیا کی بڑی طاقت بنی ہوئی ہیں جس کی بڑ ی واضح مثال جنوبی کوریا ہے۔ میں چونکہ تاریخ اورفلسفہ کا طالب علم ہوں اور صنعت وتجارت سے وابستہ ہوںاس لئے جنوبی کوریاکے جن چند حقائق سے واقف ہوں وہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتاہوں۔
1960 سے پہلے جنوبی کوریا دنیا کا غریب ترین ملک تھا جس کی جی ڈی پی صرف 2.78بلین ڈالرز اور فی کس آمدنی صرف 64ڈالرز تھی یعنی معیشت کا حال بہت دگرگوں تھا۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا قدرتی و معدنیاتی ذخائر کے لحاظ سے بھی انتہائی غریب تھا کہ گیس، تیل اور دیگر معدنیاتی وسائل بھی اس کے پاس نہ ہونے کے برابر تھے۔ مگر1960کے بعد سے جنوبی کوریا نے صرف بیس سالوں میں اپنی معیشت کو فقیدالمثال وسعت دی جس کو تاریخ میں’’ دریائے ہان کا معجزہ‘‘ (Miracle on the Han River) کہا جاتا ہے۔
1961میں جنرل پارک چنگ ہی نے اقتدارمیں آکر پنج سالہ منصوبوں کے تحت ملک کو معاشی واقتصادی ترقی کی سمت گامزن کیا اور جنوبی کوریا نے صرف اپنے ارباب اختیار کے جہد مسلسل اوراپنی افرادی قوت کے بل پر سالانہ آٹھ فیصد شرح نمو کے ساتھ دنیا میں تیز ترین ترقی کرنے والے ملک کا اعزاز پایا اور مختلف نشیب وفرازاور 1997کے ایشیائی معاشی بحرانوں کے بعداب ایشیا کی چوتھی مضبوط معیشت اور 1.447ٹریلین ڈالرز کی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی گیارہویں مستحکم معیشت بن چکا ہے جبکہ جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی 39,276ڈالرز ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا 526.76بلین ڈالرز کی برآمدات کے ساتھ دنیا کا چھٹا بڑا برآمد کنندہ اور 542.9بلین ڈالرز کی درآمدات کے ساتھ دنیا کا ساتواں بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔چونکہ جنوبی کوریا میں تیل ، گیس اور دیگر قدرتی وسائل نہیں تھے اس لئے اس نے اپنی معاشی ترقی کے لئے پیداواری اور صنعتی عمل کو اپنایا اور آج جنوبی کوریا کی معاشی ترقی ان کی کامیاب معاشی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کم قدرتی وسائل رکھنے کے باوجودصرف پیدواری عمل اور صنعتی ترقی سے ملکی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس جب ہم اپنے ملک کودیکھتے ہیں توجنوبی کوریا کے مقابلے میں ہمارے ہاں قدرتی وسائل اور ذخائر کی بہتات ہے ۔
ہمارے ہاں دنیا کے دوسرے بڑے کوئلے کے ذخائر ہیں جہاں 185بلین ٹن کوئلے کے ذخائرہیں جس سے 618بلین بیرل خام آئل حاصل کیا جاسکتا ہے جو کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے دگنا ہیں۔ اس کے علاوہ سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں آئل کے 436.2بلین بیرل کے ذخائر موجود ہیںمگر ہم اس سے استفادہ ؒ کرنے کے بجائے صرف یومیہ 65997بیرل کی پیداوار پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں282ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائر ہیں جبکہ ہم صرف دریافت شدہ 31.2ٹریلین کیوبک فیٹ کے ذخائر استعمال میں لارہے ہیں ۔
بلوچستان کے علاقے ریکوڈک اور سینڈک اپنے سونے اورتانبے کے ذخائر کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں امریکہ اور چین کے سونے کے ذخائر سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں جپسم، لائم اسٹون، کرومائیٹ، آئرن، سلور، قیمتی پتھر، ماربل، ٹائل، سلفر ، سیلیکا اور یورینیم کے ذخائر بھی بے شمار ہیں اورکروڑوں ایکڑ پر محیط زرخیز زمین ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا واحد اسلامی ملک ہونے کے ساتھ افرادی قوت سے بھرپور ایک ملک ہے جس کی آبادی جنوبی کوریا کی آبادی سے چار گنا زیادہ ہے ۔ مگر معاشی طور پر کمزور اور غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے ، ناقص اور غیر پائیدار معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اورقرض وبھیک کے حصول کی پالیسیوں کی وجہ سے آج بھارت بھی ہمیں تڑیاں لگارہا ہے ، امریکہ بھی دبائو در دبائوکی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، بنگلہ دیش بھی ہمیںبے توقیر کرنے کی کوشش کررہا ہے اور چہ پدی چہ پدی کا شوربہ، افغانستان بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے اس لئے اگر ہمیں اپنے ملک کو ترقی دینی اور معیشت مضبوط کرنی ہے توہمیں جنوبی کوریا کے جیسی معاشی پالیسیوں کواپنے ملک میںلاگو کرنا ہوگا حالانکہ 1960کے اوائل میں جبکہ جنوبی کوریا اپنے بدترین دور سے گزر رہا تھا اس وقت پاکستان کو دنیا بھر میں معاشی ترقی کے حوالے سے بڑی پذیرائی مل رہی تھی اور دنیا بھر میں پاکستان کی معاشی ترقی کے چرچے تھے جبکہ اقتصادی ترقی کے حوالے سے پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی کی ساری دنیا معترف ہورہی تھی ۔اس وقت بہت سے ممالک نے پاکستان کی معاشی ترقی کو سراہا تھا جن میں جنوبی کوریابھی شامل تھااور یہ جنوبی کوریا ہی تھا جو ہم سے ہمارادوسرا پنج سالہ منصوبہ لے کر گیا تھا مگر ہم نے تواس کو الماری کی زینت بنادیا جبکہ جنوبی کوریا نے اس کو اپنے ملک میںنافذ کیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ۔
اگر ہم 1960کے پاکستان اور جنوبی کوریا کامعاشی موازنہ کرتے ہیں تو ہمیںباآسانی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی شرح نمو 6فیصد سالانہ تھی جبکہ جنوبی کوریا کی 0.6فیصد سالانہ تھی ۔ اس وقت پاکستان میں پیداوری شعبہ کی ابتداء ہوئی تھی جس میں سیمنٹ انڈسٹری، آٹو موبائل انڈسٹری اور بھاری صنعتوں میں پیداواری عمل کا آغاز ہوا تھا جبکہ اسی دوران جنوبی کوریا میں بھی پیداواری عمل اور بھاری صنعتوں کی جانب قدم بڑھایا گیا تھا ۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ پاکستان میں پیداواری عمل بتدریج ختم ہوتا گیا جبکہ جنوبی کوریا نے پیداوری شعبے میں اپنی دھاک دنیا پر بٹھا دی ۔اس کے علاوہ 1960-1961 میں جنوبی کوریا کی برآمدات 85ملین ڈالرز جبکہ پاکستان کی برآمدات 378ملین ڈالرز تھیں یعنی پاکستان کی برآمدات جنوبی کوریا کی برآمدات سے 77گنا زیادہ تھیں مگر اب قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جنوبی کوریا کی برآمدات پاکستان کی برآمدات سے 96گنا ذیادہ ہیں یعنی جنوبی کوریا تومعاشی ترقی کی جانب گامزن رہا اور ہم معاشی پستی میں گرتے چلے گئے ۔یہاں اس تجزئیے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر معاشی پالیسیاں پائیداراور زمینی حقائق کے مطابق ہوں اور ان پر ایمانداری سے عمل بھی کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت معاشی استحکام اور ترقی سے نہیں روک سکتی مگر ناقص اور غیر پائیدارپالیسیوں پر چلنے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو آج پاکستان کا ہورہا ہے ۔
یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنی ناقص اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے بدولت بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہوجاتے ہیں اسی لئے نہ اپنے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاپارہے ہیں اور نہ ہی صنعتی وپیداواری عمل کی جانب جارہے ہیں ۔یہ عالمی طاقتیں ہی ہیں جو پاکستان میں پیداواری عمل کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کو کیمیکل ، ریفائنری ، آٹو موبائل ، فرٹیلائزر اور اسٹیل کے شعبہ جات نہ لگانے کا مشورہ دیا تھااور جو ان شعبوں میں موجود ادارے ہیں ان کو بھی ختم کرنے کے احکامات صادر کئے تھے اوراس کی وجہ ان کی جانب سے یہ بتائی گئی تھی کہ دنیا کی معیشت اب متقابل ہورہی ہے اس لئے پاکستانی معیشت ان شعبہ جات کا بوجھ اٹھا نہیں پائے گی یعنی پاکستان کو صنعتی ترقی سے روک دیا جائے اور صرف اور صرف تجارتی ملک بنایا جائے۔ اس لئے اگر ہم کو دنیا کا ایک باعزت، باوقاراورخودمختارملک بننا ہے تو قدرت نے جو ہمیں بیش بہا قدرتی ومعدنیاتی خزانے دئیے ہیں ان کوبغیر کسی بیرونی واندرونی دبائو کے بروئے کارلائیں کیونکہ ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے بقول علامہ اقبال
’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘

ای پیپر دی نیشن