رپورٹ:تھموسن سائن ایف آر
ترجمہ: مصطفیٰ کمال پاشا
قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی سال 7سے 86 سالہ قید کی سزا بھگت رہی ہے۔عالمی شہرت یافتہ امریکی اداروں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتوں کو عالمی دہشت گرد قرار دینا امریکی نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے۔ امریکہ میں قیام اور تعلیم و تدریس کے دوران، شفاف اور امن پسند خاتون کو ”روپوشی کے پانچ سالوں“ کی مشکوک سرگرمیوں کی بنیاد پر عالمی دہشت گرد قرار دے کر 86 سال کی قید سنا دینا، دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی 16 سالہ کاوشوں پر بدنما دھبا ہے۔ استغاثہ کے تمام گواہاں سرکاری اہلکار تھے ایک ایسی خاتون جو M-4جیسی بھاری رائفل چلانا تو دور کی بات ہے اٹھانے کے بھی قابل نہیں تھی، اسے امریکی فوجیوں پر قاتلانہ حملے کرنے اور امریکہ میں تباہی مچانے کے منصوبہ ساز کے طور پر عالمی دہشت گرد کے طور پر 86 سال قید کی سزا دینے کی مثال امریکہ کی تاریخ میں کہیں نہ مل سکے گی۔
عافیہ صدیقی، دہشت گردی کے خلاف 2001 سے جاری عالمی جنگ میں گرفتار ہونے اور 86 سال قید کی سزا بھگتنے والی واحد خاتون ہیں یہ خاتون ایک عرصہ امریکہ میں مقیم رہی وہاں کے عالمی شہرت یافتہ اداروں میں پڑھتی رہیں گریجوایشن بھی وہاں سے کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی وہاں سے حاصل کی، حصول تعلیم اور تدریس کے دوران امریکی معاشرے کی اقدار کے مطابق ”خدمت خلق“ اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔ ایوارڈ بھی ملے نقد انعامات بھی شادی کے بعد اپنے خاوند کو بھی امریکہ لے گئیں ۔ انہیں 2008 میں القاعدہ کے Most Wanted افراد کی لسٹ میں شامل قرار دے کر گرفتار کیا گیا اور 23ستمبر 2010 میں 86 سالہ قید کی سزا سنائی گئی۔
امریکہ حکام کی نظر میں وہ ”Al Qaida Lady“ ہے جبکہ ہم پاکستانی انہیں ”دختر پاکستان“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی زندگی کے بارے میں تمام باتیں اور عوامی ریکارڈ بڑا صاف اور سیدھا سادہ ہے جبکہ ایف بی آئی کی طرف سے انکے خلا ف استغاثہ انہیں خطرناک ترین دہشت گرد قرار دیتاہے۔ امریکی ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر عافیہ صدیقی کو ” خطر ناک دہشت گرد“ قرار دیا گیا وہ (2003-2008) پانچ سالوں کے دوران عافیہ کی سرگرمیوں پر مشتمل بتائی جاتی ہیں۔
ایف بی آئی نے جولائی 2008 میں عافیہ صدیقی کو اس کے گیا رہ سالہ بیٹے کے ساتھ غزنی سے دو ایف بی آئی اہلکاروں اور دو امریکی فوجیوں پر مشتمل چار رکنی ٹیم نے گرفتار کیا، گرفتاری کے وقت اس سے کچھ نوٹس برآمد ہوئے جس میں ” وسیع پیمانے پر ہلاکتوں“ اور امریکی مجسمہ آزادی و دیگر کچھ مقامات بارے معلومات درج تھیں یعنی ان مقامات پر حملہ کرکے وسیع پیمانے پر لوگوں کو کیسے ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بوتلیں اور مرتبان بھی برآمد ہوئے جن میں ”کیمیائی مواد“ موجود تھا۔ یعنی یہ سب کچھ ” امریکیوں کو ہلاک“ کے لئے تھا۔
افغان پولیس نے انہیں ” خودکش بمبار “ قرار دیا جبکہ امریکی ان سے برآمد شدہ ”مواد“ میں دلچسپی رکھتے تھے۔
عافیہ کو تفتیشی کمرے میں لے جایا گیا۔ جہاں ایک فوجی M-4 رائفل اپنے پاﺅں پر رکھے بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک مترجم کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ عافیہ رائفل پکڑے فوجی کے سر کا نشانہ لئے کھڑی تھی مترجم نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن اس نے چلاتے ہوئے دو فائر کئے۔ ” یہاں سے دفع ہو جاﺅ“ ”اللہ اکبر“۔ کسی کو گولی نہیں لگی مترجم نے عافیہ سے رائفل چھینے کی کوشش کی اس دوران دوسرا فوجی اندر داخل ہوا اور اپنے پستول کے فائر سے عافیہ کو زخمی کیا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ اس کے پیٹ میں گولی ماری گئی تھی انکے بقول وہ امریکیوں کو قتل کرنا چاہتی تھی۔ اس کے بعد عافیہ کو بگرام لے جایا گیا۔ یہاں اس کے آپریشن کئے گئے اور 17 دنوں بعد اسے ایف بی آئی کے جیٹ میں نیویارک لے جایا گیا جہاں اس پر قتل اور اقدام قتل کے سات الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور 23 ستمبر 2010کو 86 سالہ قید کے بعد جیل بھیجوا دیا گیا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف 16 سالہ جنگ میں عافیہ صدیقی کا کیس بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی تاریخ میں ایم آئی ٹی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کو دنیا کی سب سے مطلوب (World most Wanted) قرار دیا گیا وہ 2003 میں منظر سے پانچ سال کے لئے غائب ہوگئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران اسے ” القاعدہ کی ماتاہری“ کا خطاب بھی دیا گیا۔
2008 میں گرفتاری کے بعد استغاثہ نے اس پر امریکی فوجیوں پر M-4 رائفل کے ذریعے قتل کرنے کی کوشش کا مضحکہ خیز الزام لگا کر اسے 86 سال قید میں ڈال دیا گیا۔
استغاثہ میں دی گئی زیادہ تر معلومات 2003 تا 2008 کے پانچ سالوں کے دوران عافیہ کی مبینہ دہشت گرد سرگرمیوں کے حوالے سے ہیں۔ عافیہ کی معلوم زندگی کا ریکارڈ، امریکہ میں تعلیم و تدریس کے دوران اسکی سرگرمیاں اس سے میل نہیں کھاتیں۔ لیکن امریکی حکام نے گمشدگی کے انہی پانچ سالوں کے درمیان عافیہ کی سرگرمیوں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ حقیقناً ”عالمی دہشت گرد“ نظر آتی ہیں استغاثہ کے سارے گواہاں سرکاری تھے جن کی Credibility کے بارے میں دو آراءنہیں ہو سکتی ہیں ۔ اس حوالے سے دی گارڈین کے ڈیکلن والش کی تحقیقاتی رپورٹ 24 نومبر 2009 کی اشاعت میں دنیا کے سامنے آئی جسمیں ان پانچ سالوں کے دوران عافیہ کی سرگرمیوں بارے میں لکھا گیا۔
مارچ 2003ءتا جولائی 2008ء: عافیہ نے پانچ سال کہاں اور کیسے گزارے؟ ابی آئی نے عافیہ کی انہی پانچ سالہ دور میں کی جانے والی سرگرمیوں میں معاونت فراہم کرنے کے جرم میں 86 سال قید میں ڈالا۔
عافیہ کے خاندان کے افراد اور پاکستان حکام کے مطابق اس دوران عافیہ صدیقی ایف بی آئی کی تحویل میں رہی۔ لیکن امریکی حکام کے مطابق عافیہ صدیقی نے یہ عرصہ ”روپوشی“ میں گزارا۔ استغاثہ کے مطابق اس دوران عافیہ صدیقی شیخ خالد محمد کی البلوچی فیملی کے ساتھ چھپی رہی۔
2003ءمیں پاکستانی حکام اور ایف بی آئی نے بیان دیا کہ عافیہ صدیقی مفرور ہے۔ 26 مارچ 2004ءامریکی اٹارنی جنرل جان ایش کرافٹ نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ”عافیہ صدیقی القاعدہ کے سات مطلوبہ دہشت گردوں میں شامل ہے“ جن سے امریکہ کو واضع خطرہ در پیش ہے۔
نیویارک ٹائمز نے امریکی ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے حوالے سے خبر دی کہ ابھی کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اخبار نے ڈیموکریٹس کے حوالے سے لکھا کہ بش انتظامیہ عراق پر حملہ کرنے کے حوالے سے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ایسا کر رہی ہے۔
2008ءمیں دوبارہ منظر پر آنے اور گرفتاری کے بعد ایف بی آئی کو بیان دیتے ہوئے عافیہ نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران وہ خالد شیخ کے قبیلے کے پاس رہی۔ 2005ءمیں کراچی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرتی رہیں۔ 2007ءمیں افغانستان میں مختلف لوگوں کی پناہ میں رہتی رہی۔ کچھ وقت کوئٹہ میں بھی گزارا۔
ایف بی آئی کے مطابق عافیہ مفتی ابولبابہ شاہ منصور سے ملی اس نے حیاتیاتی جنگ (Biological Warfare) کے لئے وائرس بھی اکٹھے کئے جب عافیہ صدیقی کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت اس کا بیٹا احمد بھی اس کے ساتھ تھا۔فغان اہلکاروں نے بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ عافیہ جیش محمد کے ساتھ وابستہ ہے جو کشمیر اور افغانستان میں جہاد کرتی ہے۔
عافیہ صدیقی کے سابق شوہر کے مطابق جب عافیہ صدیقی کے بارے میں امریکہ نے اعلان کر دیا کہ وہ القاعدہ کے ساتھ وابستہ ہے اور مطلوب (Wanted) ہے تو اس نے روپوشی اختیار کر لی۔ اپریل 2003ءمیں اس نے عافیہ کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر دیکھا جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ روانہ ہو رہی تھی۔ عافیہ کے شوہر نے عافیہ کی بازیابی کے لئے آئی ایس آئی کی بھی مدد کی۔ دو سال بعد اس نے عافیہ کو کراچی کے ٹریفک جام میں دیکھا۔ شوہر کے مطابق اس نے بچوں کی تحویل کے لئے کئی بار کاوشیں کیں لیکن ناکام رہا۔ اس حوالے سے عافیہ کے خاندان کے اخبارات میں چھپنے والے تمام دعوے یکطرفہ ہیں۔
عافیہ کے ماموں شمس الحسن فاروقی نے اپنے ایک حلفیہ بیان میں کہا ”22 جنوری 2008ءکو عافیہ اس کے گھر آئی اور بتایا کہ اسے پاکستانی ایجنٹوں نے گرفتار کیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ میں افغانستان میں کام کرتی رہی ہوں اور 1999ءمیں میرا طالبان سے رابطہ تھا۔ اس نے مجھ سے مدد طلب کی کہ میں اسے طالبان کے زیر انتظام افغانستان ہجرت کرنے میں مدد فراہم کروں۔ میں نے اسے بتایا کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے اپنی بہن (عافیہ کی ماں) کو اطلاع دی اور وہ اگلے دن میرے ہاں آ گئی اس نے یہاں 2 دن قیام کیا“۔
استغاثہ اس طرح کی معلومات فراہم کرتا ہے جس سے لگتا ہے کہ عافیہ واقعتاً ایک خطرناک دہشت گرد خاتون ہے جو القاعدہ سے مل کر امریکہ میں قتل و عارت گری کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہےں۔
دوسری طرف عافیہ صدیقی کی پبلک لائف کے حقائق ان کی تردید کرتے ہیں۔ عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972ءکراچی میں پیدا ہوئیں۔ 1990ءمیں سٹوڈنٹ ویزہ پر امریکہ گئیں۔ انہوں نے نیوروسائنسز میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے تمام مراحل چار سال سے بھی کم مدت میں طے کر لئے۔ یہ حیران کن ذہانت کا ثبوت ہے۔
عاقیہ کے والد محمد صالح صدیقی بھی نیورو سائنسدان تھے آپ نے برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ آپکی والدہ عصمت ایک نیک، پرہیز گار ٹیچر اور فلاحی کاموں کے لئے معروف تھیں۔ آپ کے ماں باپ کا تعلق کراچی کی اردو سپیکنگ مہاجر فیملی سے ہے۔ دیو بندی مکتبہِ فکر سے تعلق رکھنے والا یہ خآندان ، با عمل مسلمان گھرانے کے طور پر پہچانا جاتا ہے ۔ جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں انہوں نے حدود آرڈیننس کی شدید مخالفت کی اور اس طرح وہ ملکی سطح پر معروف ہوئیں جنرل ضیاءالحق نے انہیں زکوٰة کونسل کا ممبر نامزد کیا۔ عصمت (عافیہ کی والدہ) مجاہدین افغانستان کی سودیت افواج کے خلاف پر جوش حامی تھیں انکی مدد کے لئے بھی کوشاں رہیں۔
ننھی عافیہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سودیت یونین کے خلاف برسرِ پیکار مجاہدین افغانستان کی پر جوش حامی بنیں اور گھر گھر پمفلٹ تقسیم کیا کرتی تھیں گویا اسلامی اقدار، جہاد اور انکے لئے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد عافیہ کو بچپن سے ہی ورثہ میں ملیں۔ عافیہ تین بہنوں بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں انکی دوسری بہن فوزیہ صدیقی بھی نیورو لوجسٹ ہیں ہارورڈ یونیورسٹی سے سند یافتہ ہیں۔ پاکستان لوٹنے سے پہلے ہالٹی مور کی جان ہاپکن یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہی ہیں شینائی ہسپتال ہالئی مور میں خدمات بھی سر انجام دیتی رہی ہیں۔
1990ءمیں عافیہ صدیقی سٹوڈنٹ ویزہ پر ہیوسٹن ٹیکساس میں اپنے بھائی کے پاس امریکہ چلی گئیں۔ ہیوسٹن یونیورسٹیمیں تین سمیسٹر پڑھنے کے بعد فل سکالر شپ پر میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) میں چلی گئیں۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے یہاں عافیہ نے 5000 امریکی ڈالر کا ولسن ایوارڈ جیتا یہ ایوارڈ انہیں ”پاکستان میں اسلامائزیشن اور اس کے عورتوں پر اثرات“ پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے دیا گیا۔ مقالہ لکھنے کے لئے تحقیقاتی مواد اکٹھا کرنے کے لئے عافیہ پاکستان آئیں اور تقی عثمانی سے بھی ملاقاتیں کیں اور اسلامائزیشن کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کی۔
عافیہ صدیقی اس سے پہلے ایک جونیئر طالبعلم کے طور پر کیمبرج ایلمینٹری سکول کے کھیل کے میدانوں کی صفائی کے پروگرام میں ایم آئی ٹی کی طرف سے 12 سو ڈالر وصول کر چکی تھی۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں ابتدائی طور پر بائیالوجی، انفرویالوجی اور آرکیالوجی کے تین مضامین میں تحقیق بھی کر چکی تھیں انہوں نے 1995 میں بائیالوجیمیں گریجوایشن مکمل کی۔
پاکستان سے واپسی کے بعد عافیہ نے الکیفا ریفیوجی سنٹر کیلئے بھی کام کرنا شروع کردیا۔ اس مہاجر سنٹر کے ساتھ ایسے لوگ بھی وابستہ تھے جو دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ معروف قوم پرست یہودی مائر کہانے (Meir Kahane) کو قتل کرنے والے بھی اس سنٹر سے وابستہ تھے۔ 1993ءمیں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں دھماکوں میں ملوث رمزی یوسف کے مددگار بھی اسی سنٹر کے ممبران تھے۔
عافیہ صدیقی گفتگو پُراثر گفتگو کرنے میں مہارت رکھتی تھیں‘ وہ جہاد کیلئے فنڈز اکٹھے کرتی تھیں‘ وہ الکیفا کیلئے مسلسل فنڈز اکٹھے کرنے والی واحد خاتون تھیں‘ مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے وہ کئی ایک راسخ مسلمانوں سے ملیں اس پلیٹ فارم سے ان کے سہیل لاہر جیسے جہادی مبلغین سے روابط قائم ہوئے جو 9/11 سے پہلے کھلے عام جہاد کی تبلیغ کرتے تھے۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے ایسے ہی لوگوں کے ساتھ روابط‘ انہیں دہشت گرد نیٹ ورک میں لے گئے۔
الکیفا ریفیوجی سنٹر
معروف عرب پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ یوسف عزام نے افغان مجاہدین کی مدد کیلئے بروکلین نیویارک میں قائم کیا تھا۔ اس دور میں امریکی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے مطابق جو لوگ مجاہدین سوویت یونین کی افغانستان پر قابض افواج کیخلاف لڑ رہے تھے وہ فریڈم فائٹر یعنی آزادی کیلئے لڑنے والے‘ اپنی آزادی کی حفاظت کرنے والے کہلاتے تھے۔
جب دسمبر 1971ءمیں سوویت افواج افغانسان میں داخل ہوئیں تو امریکی کارٹر انتظامیہ نے پاکستان کو تین سو ملین کی امداد کی پیشکش کی تاکہ شمالی مغربی سرحدیں مضبوط کرے اور افغانستان کو بھولی بسری داستان قرار دے لیکن پاکستان نے افغانستان کی آزادی کیلئے لڑنے والوں کی پشت پناہی کرنے کا فیصلہ کیا پھر 2002ءمیں جب رونالڈ ریگن برسراقتدار آئے تو انہوں نے سوویت یونین کیخلاف مورچہ زن ہونے کا فیصلہ کیا اور اس طرح پاکستان سوویت یونین کیخلاف فرنٹ لائن ریاست بن گیا۔ اس دور میں اخوان المسلمین کے ایک لیڈر عبداللہ عزام جو سعودی عرب کی کنگ عبدالغزیز یونیورسٹی میں پروفیسر تھے پاکستان چلے آئے اور افغان جہاد کی نصرت، القاعدہ کی تشکیل اور خوست میں عرب نوجوانوں کی تربیت اور جہاد تنظیم کیلئے ”الفتح کیمپ“ کا قیام اسی کی یادگار ہیں۔ اسامہ بن لادن کو اسی دور میں یہاں لایا گیا۔ الکیفا مہاجر سنٹر کا نیویارک میں قیام اس دور کی یادگاریں ہیں ۔ جہادی لیڈر بشمول گلبدین حکمت یار‘ پروفیسر سیاف ا‘ جلال الدین حقانی‘ پیر جیلانی‘ پروفیسر برہان الدین ربانی‘ مجددی سب امریکہ کے سرکاری مہمان بنتے تھے۔ مغرب میں انہیں بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
جب امریکی اتحادی اشتراکیت کیخلاف مورچہ زن تھیں اور عیسائی نوجوانوں کو ”شیطان“ کیخلاف ابھارا جاتا تھا اس وقت ”جہاد“ اور ”جہادی“ امریکہ اور ان کے حمایتیوں کی آنکھ کا تارا تھے۔
الکیفا ریفیوجی سنٹر کیلئے کام کرتے ہوئے عافیہ جہادیوں کے ساتھ روابط میں آئیں۔ 1995ءمیں ان کی والدہ نے ان کی شادی کا فیصلہ کیا۔ کراچی کے ایک انیستھیالوجسٹ ڈاکٹر امجد محمد خان کے ساتھ ٹیلی فون پر شادی کردی۔ خان امریکہ گیا اور اس طرح میسا جوسٹس کے لیگزنگٹن بعدازاں بوسٹن کے علاقے راکس بری میں جوڑا رہنے لگا۔ خان نے ایک ہسپتال میں ملازمت شروع کردی۔ 1996ءمیں محمد احمد بیٹا اور 1998ءمیں مریم بنت محمد بیٹی پیدا ہوئی۔
عافیہ نے 2001ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ”تخیل کے ذریعے سیکھنے کا عمل“ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے جہاد کے بانی عبداللہ عزام کی ایک کتاب ”عرب افغان شہدائ“ کا ترجمہ کرنا شروع کردیا اب وہ اور زیادہ پابند شریعت ہوگئیں۔
1999ءمیں بوسٹن قیام کے دوران انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچٰنگ کی بنیاد رکھی اپنے خاوند کو اس کا خزانچی اور بہن کو ریذیڈنٹ ایجنٹ مقرر کیا۔ انہوں نے یہاں ایک مسجد میں بھی جانا شروع کیا جہاں قرآن کریم کے نسخے اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کرنے کیلئے رکھے۔ انہوں نے دعوة ریسورس سنٹر کی بنیاد رکھنے میں بھی تعاون کیا جو قیدیوں کیلئے (Faith Based) عقیدے کے مطابق خدمات فراہم کرنا تھا۔
گویا عافیہ صدیقی کی تمام سرگرمیاں امریکی معاشرے کی اقدار اور قوانین کے مطابق تھیں اور انہیں کبھی بھی ایسا کرنے سے روکا نہیں کیا لیکن 2003ءتا 2008ءکے روپوشی کے دوران سرگرمیوں کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے کر 86 سالہ قید کی سزا سنائی گئی جو امریکی نظام عدل پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔