اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں فلور کراسنگ روکنے کے لئے خیبر پی کے کے لوکل باڈی ترمیمی ایکٹ 2017ء کے نفاذ اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نکالے گئے امیدواروں کی اپیلوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ جلد بازی میں بنایا گیا خیبر پی کے لوکل باڈیز کا نظام خامیوں سے بھرا پڑا ہے، مختلف قوانین قواعد و ضوابط کے متعلقہ حصوں کو کاپی پیسٹ کیا گیا ہو، بلدیاتی نظام ایکٹ 2013ء کی خوبیوں اور خامیوں کا بعد میں بھی تفصیلی جائزہ نہیں گیا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلدیاتی ایکٹ کی خامیاں سامنے آ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ایکٹ میں 2017ء میں ترمیم کی گئی ہے ، فوری قانون سازی کا مقصد یہی تھا کہ بس جلد از جلد بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فلورکراسنگ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کا استعمال کرنے پر سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور جے یو آئی ف سے نکالے گئے بلدیاتی نمائندوں، ناظم ایبٹ آباد شیر بہادر خان ، نائب ناظم شوکت خان تنولی، کونسلرزوغیرہ کی اپیلوں کی سماعت کی سماعت ہوئی۔ جے یو آئی کے کے وکیل وکیل کامران مرتضیٰ نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی کی واضح ہدایات کے باوجود بلدیاتی الیکشن 2015ء میں کامیاب منتخب نمائندوں نے مخالف پارٹی کے امیدوارکو ووٹ دیا جس کی وجہ سے جے یو آئی لکی مروت کے پانچ ضلعی کونسلر کو نکالا گیا، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ جب سامنے پارٹی کا امیدوار ہی نہ ہو تو ووٹ دینے والا آزاد ہوتا ہے کہ وہ جسے مرضی چاہئے امیدوار کو ووٹ دے ۔ وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ صر ف جے یو آئی(ف)نے نہیں بلکہ اسی قانون کے تحت تحریک انصاف نے ضلع ناظم ،نائب ناظم ایبٹ آباد کو پارٹی سے نکالاتھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز موجود نہیں کہ لکی مروت میں جے یو آئی کا امیدوار کون تھا اور پارٹی نے منتخب نمائندہ کو ہدایت جاری کی ہو کہ ہو اپنی پارٹی (جے یو آئی) کے سوا کسی اور امیدوار کو ووٹ نہ دیں، جب پارٹی نے کوئی ہدایت ہی جاری نہیں کی تو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟۔