”سیاسی ایشوز“ کا عدالتوں میں آنا خطرناک روش ہے“

اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان) آئینی و قانونی ماہرین نے کہا کہ ”سےاسی ایشوز کا“ مقدمات کی صورت میں عدالتوں میں آناایک خطرناک روش بنتا جارہا ہے جس سے جہاں آئینی ادارے سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتوں کی ساکھ متاثر ہورہی ہے وہاں پارلیمنٹ سمیت دیگر اداروں کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کسی سےاسی کیس کا فیصلہ آتا ہے تو مخالف گروپوں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر ضابطہ اخلاق سے تجاوز کرتے ہوئے تنقید اور تعریف کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، بالواسطہ ےا بلاواسطہ عدالتی تقدس کو پامال کےا جاتا ہے جبکہ اس بحث میں ججز کی کردار کشی کرنے تک سے گریز نہیں کےا جاتا، اس پر اگر عدالت کوئی ایکشن لیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کرے تو اس عمل کو مخالفین عدالتی جانب داری کا الزام دیتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ سےاسی ایشو کے حوالے سے پانامہ کیس کے فیصلے نے ملکی سےاست پر گہرے اثرات ڈالے ہیں اور مزید اثرات وقت کے ساتھ ساتھ مرتب ہورہے ہیں تو یہ کہنا بے جانا نہ ہوگا ،پانامہ کیس کے فیصلہ سے جہاں سےاسی طور پر ہلچل مچی وہاں ایک منتخب وزیراعظم کو گھر جانا پڑا اس کی وفاقی کی تشکیل نو کرنا پڑی۔ بین الااقوامی سطح تک فیصلہ کا اثر گےا، فیصلہ کا یہ تاثر منفی اور مثبت دونوں طرح کا ہے ایک آئین و قانون سب کے لئے برابر ہے اس کی گرفت سے کوئی چھوٹا بڑاےا باثر ملزم بچ نہیں سکتا دوسرے فیصلہ سے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوئی ہے عدالتی وقار میں اضافہ ہوا ہے، وگرنہ عوام میں یہ تاثر عام تھا کہ قانون صرف غریب کے لیئے ہے طاقتور قانون سے بالاتر ہے پانامہ کیس کے فیصلے سے پہلے قائم یہ تاثر کوئی ایسا غلط بھی نہ تھا۔ اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں بلکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلہ کا اثر موجودہ سےاست پر پڑا ہے اور عام انتخابات پر بھی پڑ ے گا۔ جمہوریت کی بقاءاور ملکی ترقی کے لئے بلاتخصیص ہر ایک شخص کا احتساب ضروری ہے یہی بات آئین پاکستان کی اساس ہے۔ رےاست کے تین ستون مقننہ، عدلیہ، انتظامہ باہمی ایک دوسرے کی سپورٹ کے لیئے ہیں، آئین پاکستان میں ان تین آئینی ستونوں کی حدود، اختےارات مقرر کی ہیں جب ایک ادارہ اپنا کام نہیں کرے گااختےارات سے تجاوز کرے گا تو ان اداروں کے ٹکراﺅ سے رےاست لازمی طور پر غیر مستحکم ہوگی۔ آئینی ماہرین نے کہا کہ بین الاقوامی پانامہ سیکنڈل 2016ءکے شروع میں منظر عام پر آےا جس سے بہت سے ممالک متاثر ہوئے اہم سرکاری و نجی شخصیات کو آف شور کمپنےاں بناکر بے نامی اثاثہ جات چھپانے کے جرم میں اپنے عہدوں سے استعفے دینے پڑے جبکہ پاکستان کے 460 افراد کی آف شور کمپنیوں کے ہونے کے انکشاف نے پاکستان کی سےاست میں بھی ہلچل مچا دی جبکہ مےاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے نام آنے پر معاملے میں زےادہ شدت پیدا ہوگئی اس معاملے کو جو سےاسی نوعیت کا تھا پارلیمنٹ کے پلیٹ فورم پر حل ہونا چاہیے تھا مگر سےاسی جماعتوں کی ناعاقبت اندیشی کے باعث اور معاملہ حل نہ ہونے پر آخر یہ پانامہ سےاسی ایشو کیس کی صورت میں سپریم کورٹ آگےا جس کا پانچ رکنی لارجر بنچ نے 28 جولائی کو فیصلہ جاری کےا۔ اس فیصلے کے پاکستانی سیاست میں اثرات مرتب ہوئے اور عدالتوں کی تعریف اور ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن