مولانا محمد علی جوہر کے اس شعر: ’’قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ‘‘ میں اسلامی تاریخ کا ایک مکمل باب پنہاں ہے۔ سانحہء کر بلا دنیا کی تاریخ میں وہ واحد جنگ ہے جس معرکے میں شکست کھانے والے کوفاتح قرار دیا گیا اور جس نے خود کو فتح سے ہمکنار سمجھا اسے تاریخ نے شکست خوردہ تصور کیا۔سانحہء کربلا 10محرم61سنہ ہجری یعنی10اکتوبر680سنہ عیسوی کوپیش آیا۔ اس سانحے میں نواسئہ رسولﷺ امام حسین ابن علیؓ کے مٹھی بھر ساتھی اور گھر والے یزید کے ٹڈی دل لشکر سے ٹکرائے اور جام شہادت نوش فرمایا۔
سنہ680میں جب خلفیہ حضرت امیر معاویہ کا انتقال ہواتوانکے بیٹے یزید کو بنی امیہ کا خلیفہ مقرر کرلیا گیا اور اس نے اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ امام حسین ؓ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کردیا کیونکہ انکے بھائی حضرت امام حسنؓ اور حضرت امیرمعاویہ کے درمیان معاہدے کے مطابق خلافت امام حسین ؓ کے ذمے آنی تھی۔ یزید نے اس معاہدے کی خلاف وزری کرتے ہوئے اپنی خلافت کا اعلان کردیا۔ کوفے کے لوگوں نے امام حسینؓ کو دعوت دی کہ وہ نواسئہ رسولؐ سے وفاداری برتے ہیں اور اگروہ کوفہ تشریف لائیں تو وہا ںانہیں خلیفہ مقرر کرانے میں انکی مدد کریں گے۔ امام حسین ؓ اپنے گھر والوں اور ایک مختصر قافلے کے ہمراہ کوفہ روانہ ہوئے لیکن کوفہ والوں نے انکا ساتھ نہ دیا۔ عراق میں کربلا کے مقام پہ یزید کے بھیجے ہوئے لشکر نے امام حسین ؓ کے قافلے کوجالیا اور انکا محاصرہ کرلیا۔ ان کی خوراک اور پانی کوبھی بند کردیا ۔ یزید کی فوج کی قیادت الحرابن یذیر التمیمی کر رہے تھے۔ امام حسین ؓ نے اس معرکے میں اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ کئی گنا بڑے لشکرِ یزید کا مقابلہ کیا اور اپنے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر ؓ سمیت داعی اجل کو لبیک کہا اور حق و باطل کی اس جنگ میں بظاہر یذید کی فوج کے سپہ سالار نے نواسہ رسولؐ کا سرمبارک تن سے جدا کرکے نیزے کی انی میں پروکرلہراتے ہوئے فتح کا اعلان کیا۔ امام حسینؓ کے گھر کی خواتین کو گرفتار کرکے دمشق لے جایا گیا لیکن تاریخ نے یزید کو اس بربریت پہ کبھی معاف نہ کیا اور امام حسین ؓ کی شہادت کووہ رتبہ حاصل ہوا جس کی یاد میں دنیا بھر کے مسلمان خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی وہ یوم عاشور کو بطور شہادت حسینؓ انتہائی عقیدت سے مناتے ہیں۔اسلام میں جذبہ قربانی کا وہ سلسلہ جو حضرت اسماعیل ؑسے شروع ہوا تھا امام حسینؓ کی شہادت پہ اپنے عروج کو پہنچا۔ علامہ اقبالؒ نے اس کوعمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے …ع
’’غریب سادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسین ؓ اتبداء ہے اسماعیل‘‘۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہم مسلمان شہادت حسین ؓ پہ نوحہ اور گریہ پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں بجائے اس سبق کے جو امام حسینؓ اپنی جان کی عظیم قربانی سے ہمیں سکھاگئے کہ باطل کے سامنے حق سرکٹا تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔ سانحہ کربلا کے حق وباطل کے معرکے میں مسلمانوں کو باطل قوتوں اور جبر واستحصال کے سامنے کبھی نہ جھکنے اور ڈٹ جانے کا سبق ملا۔ اس واقعے نے اسلامی تاریخ پرگہرے اثرات مرتب کئے ۔حق کیلئے جان قربان کرنے کے جذبے کا نام حسینیت ٹھہرا اور جبرو استحصال کی ساری شکلیں یزید یت کے اندر پنہاں ہوگئیں۔ حسین ؓکانام ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا اور یزید کا نام نفرت کی علامت بنا گیا۔
’’ مٹ گیا دہر سے نام یزید
تجھ کوحاصل ہوا دوام حسینؓ ‘‘
ٓاس ضمن میں سیدہ زنیب بنت علیؓ، امام حسین ؓ کی ہمشیرہ کا یزید کی عدالت میں خطاب تاریخی نوعیت کا ہے کیونکہ سیدہ زینبؓ نے اپنے نانا اور والد کی میراث کو قائم رکھتے ہوئے جس دلیری سے یزید کو للکار ا وہ اسلامی تاریخ کا اہم جز بن گیا۔ سانحہ کربلا کے بعد نبی ؐ کے خاندان اور شہدائے کربلا کے بریدہ سر جب دمشق میں یزید کے روبرو پیش کئے گئے تویزید نے سر مبارک کی شناخت سے متعلق استفارکیا جس پہ بی بی زینب ؓنے اعتراض کیا۔ یزید نے دریافت کیا کہ ’’ یہ عورت کون ہے؟‘‘ بی بی زینب ؓنے کہا۔’’ تم ان سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ مجھ سے پوچھو میں تمہیں بتائوں گی۔ میں محمدؐ کی نواسی اور فاطمہ ؓ کی بیٹی ہوں۔ اسکے بعد سیدہ زینب ؓ نے اپنا خطاب شروع کیا:
’’ شروع اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا ہے۔تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے جو تمام دنیا کا رب ہے۔ سلامتی ہو میرے نانا جو اللہ کے رسولوں کے رہنماہیں اور سلامتی ہو انکی اولاد پر ۔اے یزید کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی شہادت اور تمہارے قیدی بن جانے سے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنے پہ مجبور ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ قابل احترام شخصیات کوقتل کرنے کے بعد تم خود قابل احترام بن گئے ہو اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور رحم آپ کے ساتھ ہے؟ تم بھول رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ ’’کافر ویہ نہ سمجھوکہ ہم تمہیں وقفہ دے رہے ہیںہم تمہیں ڈھیل دے رہے ہیں کہ تم اپنے گناہوں میں اضافہ کرو جس کے بعدذلت آمیز سزاتمہارا مقدر ہوگی‘‘۔ ( سورۃ آل عمران آیت 187)۔
آل رسول کی عزت سے معلق سیدہ زینبؓ نے سوال کیا اے آزاد کئے جانے والو ں کے بیٹو! کیا یہ انصاف ہے کہ آپ اپنی عورتوں اور غلاموں کو تو الگ الگ رکھتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی بیٹیوں کو تیز اونٹوں پر سوار کر کے دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ شہر شہرانہیںگھمائیں ؟ شہدائے کربلا سے متعلق سیدہ زینب ؓ نے فرمایا : ’’ایک دن آئے گا جب اللہ ہما رے پیارے نبی ؐ کی آل اولاد کو نجات دے گا اور انہیں اکھٹا کر کے بہشت میں داخل کرے گا۔ یہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے قرآن کریم میں ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہ و وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں‘‘ ۔
زینب ؓ بنت علی ؓ نے کہا کہ’’ کربلا کی جنگ کا تاریخ پہ مثبت اثر پڑے گا ۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد اور جدو جہد کا ابدی اثر قائم رہے گا ۔ اے یزید تم دھوکہ دہی اور مکر جتنا بھی استعمال کر و میں اللہ کی قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ جس ذلت اور رسوائی کاراستہ تم نے اختیار کیا ہے تم اسکے داغ کبھی نہیں مٹا سکوگے‘‘ ۔ سیدہ زینبؓ کی جرأت کی وجہ سے امام علی ابن حسین زین العابدین ؓجو سانحہ کربلا کے دوران علیل تھے۔ کی جان بچ گئی ۔ سیدہ زینبؓ کے بعد علی ابن حسین ؓنے یزید کے روبرو خطاب کیا کہ ، ’’اے لوگو! ہمیں چھ خصوصیا ت اور تقدیریں خدا کی جانب سے عطا کی گئی ہیں ۔ مومنوں کے دل میں علم، بخشش ، جرأت ، اور دوستی ۔ یہ ہماری امتیاز ہے کہ نبی ﷺ ہمارے درمیاں میں سے ہیں ۔ صادق امام علی ؓ ہم میں سے ہیں۔ جعفرطیار ہم میں سے ہیں ۔ اللہ کے شیر بھی ہم میں سے ہیں ۔اور دوسبطین بھی۔ جو مجھے جانتے ہیں اور جو مجھے نہیں جانتے میں اپنی نسل اور خاندان کا بلند آواز میں اعلان کرتا ہوں تاکہ سب پہچان لیں کہ میں اس شخص کی اولاد ہوں جسے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا ۔جسے اللہ نے وحی عطا کی اور پھر معراج کا سفر عطا کیا۔ میں محمد ؐ کا بیٹا ہوں ، میں علی ؓکا بیٹا ہوں میں حسین ؓکا بیٹا ہوں‘‘۔یہ درست ہے کہ امام حسین ؓ نے جو عزت اور احترام کا مقام پایا وہ فقید المثال ہے جب کہ یزید کے حصے میں رسوائی آئی۔آج بھی پاک فوج کے جانباز اپنی جانیں وطن کے دفاع کی خاطر قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ملک ، وطن، حق اور انصاف کی خاطر اللہ، رسولﷺ ، علی ؓ اور امام حسین ؓ کانام لے کر بے خطر میدان کارزار میں کود پڑتے ہیں۔ اگر شہادت ان کے نصیب میں آتی ہے تو اس سے بڑی اور کیا سعادت ہے۔
’’قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘