’بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا۔۔!

نئی حکومت کو آئے ایک ماہ مکمل ہو چکا،صدرِ پاکستان کے ، پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے ساتھ ہی نئے پارلیمانی سال کا آغاز بھی ہو گیا ہے، لفظ’ تبدیلی ‘بر سر اقتدار جماعت’ پاکستان تحریک انصاف‘ کا سیاسی و انتخابی نعرا بھی تھا اور منشورکا بنیادی نقطہ بھی، 2011 میں لاہور کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کا بنیادی محوریہی ’ تبدیلی کا نعرا‘ ہی توتھا۔2013کی انتخابی مہم اسی نعرے پر چلائی گئی ،جس کا مثبت اظہار یوں ہوا کہ پی ٹی آئی ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری، جس کی کم لوگ توقع کر رہے تھے، تاہم خود پی ٹی آئی والوں کو یقین تھاجس بنیاد پر 2013کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر ان نتائج کو نہ صرف مسترد کر دیاگیا تھا بلکہ 126دن کا تاریخی دھرنادیا گیا ۔پی ٹی آئی نے 2018کی انتخابی مہم ایک نئے نعرے’’ دو نہیں ایک پاکستان‘‘ پر چلائی ، جسے بہت سے مخالفین کے ساتھ ساتھ بعض سنجیدہ طبقوں نے بھی بے معنی قرار دیا، حالانکہ بات اتنی غیر سنجیدہ بھی نہیں تھی، فرق صرف سمجھ کا تھا، اصل میں یہ نعرا ’طبقاتی تقسیم ‘کی نفی تھا، اس نعرے کا پس منظر ’ترقی پذیر ممالک کا طبقاتی نظام‘ ہے، جس میں با اثر افرادکو تمام ترسہولیات میسر ہو تی ہیں، یہاں تک کہ وسائل و ذرائع پیداوار بھی اسی کے تصرف میں ہوتے ہیں اور غریب و لاچارا ور کمزورطبقوں کا مقدر ،ہر میدان میں ناانصافی کی چکی میں پسنا ہوتا ہے۔ کمزور اور مظلوم طبقات کی کہیں بھی سُنی نہیں جاتی،حتیٰ کہ عدل و انصاف کے ایوانوں میں بھی انہی کی سُنی جاتی ہے جو طاقتور ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاںگذشتہ اکہتر سالوں سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ قانون موم کی ناک رہا، جسے طاقتور جب چاہیں ،جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر آئین و قانون استحصالی قوتوں کی باندی بنا رہا اور ہے۔ہماری عدلیہ کی تاریخ کچھ زیادہ قابل ِ فخر نہیں رہی۔
آزاد عدلیہ کا نعرا بھی لفظی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ گذشتہ تیس پینتیس سالہ دور میں ’سٹیٹس کو‘ مزید مضبوط ہوا ،جس نے مظلوم طبقات کو اس قدر عاجز کر دیا کہ وہ ’تبدیلی‘ کے اس نعرے کی طرف کھنچتے چلے گئے۔سیاست کو منفعت بخش کارو بار سمجھا گیا اور’ بہتی گنگا‘ میںسب نے ہاتھ رنگے، اصولوں سے بڑھ کروفاداریوں کو ترجیح دی گئی، وسائل کی بے رحمانہ بندر بانٹ ہوئی کہ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ عام لوگوں کا دو وقت کی روٹی پورا کرنا تقریباً ناممکن ہو گیاہے،چالیس فی صد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزانے پر مجبور ہیں۔ یہی نہیں صحت سمیت تعلیم وتبلیغ کوکاروبار بنا دیا گیا ، ہر شعبۂ زندگی میں کرپشن کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ خوراک اور دواؤں میں ملاوٹ جیسا جرم اور گناہ بھی کاروبار کے نام پر روا ہے۔ ایسے میںکچھ لوگوں نے مفادات کی بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے ، لیکن اکثریت اس کرپٹ پریکٹس سے بہت بے زار ی کا اظہارکرتے ہوئے کسی نجات دہندہ کی متمنی تھی،ایسے میں ’تبدیلی ‘اور ’دو نہیں ایک پاکستان‘ کے نعروں میں خاصی کشش محسوس ہوئی، 2018 کے انتخابات میں عددی برتری کے ساتھ ملک گیر جماعت کی حیثیت سے اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے والی پی ٹی آئی کے تبدیلی کے بلندو بانگ دعوں کی طرح ، لوگوں نے ان سے انتہائی بلند و بانگ توقعات اور اُمیدیں وابستہ کر لیں ۔ لیکن ان توقعات کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب تحریک انصاف نے دیگرپارٹیوں کے ’الیکٹ ایبلز‘ کو پارٹی کے بنیادی اراکین پر ترجیح دی اورٹکٹوں کی غلط تقسیم بلکہ خرید وفروخت نے کارکنوں سمیت عام لوگوں کو بھی مایوس کیا۔ ’سٹیٹس کو‘ کی بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ اوران کی حلیف جماعتوں نے تحریک ِ انصاف کے خلاف ایک نقطے پر اکٹھاہو کراس کی ہر کوشش کو سبوتاژکرنے کا موقع ضائع نہیں جانے دیا، 2018کے انتخابات میں شکست کے بعد نتائج کو مسترد کرنے، حلف نہ اُٹھانے، اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے سے لے کر احتجاجی مظاہروں تک کی دھمکیاں ،خالی خولی بڑھکوں کی طرح بے معنی ہو کر رہ گئیں،اس پر مشترکہ’ متحدہ اپوزیشن‘کی کوششیں بھی پہلے قدم پر ہی ناکامی سے دو چار ہو گئیں البتہ پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل پرحکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
انتخابات جیتنا شائداتنا مشکل نہیں تھا جس قدرپی ٹی آئی کو حکومت کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔آزاد اراکین اور چھوٹی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑے؟کابینہ کی تشکیل اس سے بھی کٹھن ثابت ہوئی، الیکٹ ایبلز سمیت اتحادی جماعتوں کو خوش کرنے کیلئے ، مختصر کابینہ کے دعوں کے باوجود ’ فوج ظفر موج‘ نے تبدیلی کے امکانات کو معدوم کر دیا۔ میاں عاطف کو مشیر لینے کا فیصلہ عوامی احتجاج پر واپس لینا پڑا، ابھی یہ ایشو ختم نہیں ہوا تھا کہ مبینہ طور پر برطانوی شہریت رکھنے والے زلفی بخاری کی بطور مشیربرائے امور اوورسیز پاکستانی پر بھی سوالات اُٹھنے لگے،جس کی بیرونی شہریت کا نہ صرف وزیرِ اطلاعات بلکہ خو وزیرِ اعظم نے اعتراف کیا ،ایسے فیصلوں سے ’فرینڈ اینڈ فرینڈ پیکج‘کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں،
ضمنی بجٹ میں بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے لگائے جانے والے متعدد ٹیکس بھی حکومت پر تنقید کا باعث بن رہے ہیں۔ گو حکومت اس کی وضاحت دے چکی کہ یہ ٹیکس صرف لگژری ایٹمز پر لگائے گئے ہیں، جس سے غریب عوام متاثر نہیں ہوں گے، ان کا براہ راست اثر امراء پر ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس ریلیف میں کمی ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ایسے ایشوز ہیں جن پراپوزیشن کو تنقید کا موقع ہاتھ آ گیا ہے، اس نے حسب معمول اسے خراب اورغریب دشمن بجٹ قرار دے کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا،جبکہ حکومتی ذرائع اسے مشکل حالات میں ایک متوازن بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم غیر جانبدار ذرائع اور معروف ماہرین معاشیات نے حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے، ملک کے موجودہ معاشی بحران میںبجٹ تجاویز کو مناسب قراردیا۔ حکومت کا احتساب کا دعویٰ اور لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لانے کا خواب اس وقت چکنا چور ہوتا دکھائی دیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کے مقدمہ میں نیب عدالت کے سزا یافتہ مجرمان ،نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سزائیں معطل کر کے ان کی رہائی کا حکم دے دیا، دوسری طرف برطانیہ نے مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونے کی بنیاد پر اسحاق ڈار کو ڈی پورٹ کرنے سے انکار کر دیا تا ہم گذشتہ روزپاکستان او ر برطانیہ کے درمیان لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لانے کا معاہدہ طے پا گیا ،جبکہ مجرموں کے تبادلے پر بھی دونوں ممالک رضا مندہو گئے ، برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید اور وزیر قانون فروغ نسیم نے معاہدے پر دستخط کیے ، جس سے نئی اُمید پیدا ہوئی ہے کہ شائد اب لوٹا ہوا ملکی سرمایا واپس لایا جا سکے۔۔؟

ای پیپر دی نیشن