عمران خان کا دورہ سعودیہ و امارات

Sep 23, 2018

محی الدین بن احمد الدین

وزیراعظم عمران خاں نے ماشاء اللہ سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا ہے جبکہ عمرہ تو وہ پہلے بھی اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ کر چکے تھے۔ وزیراعظم نے شاہ سلمان آل سعود، ولی عہد شاہ محمد بن سلمان کے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف الثیمین اور وزیر انرجی و انڈسٹری و معدنیات خالد الصالح سے ملاقاتیں کیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجہیر اور وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سعودی وزیر ثقافت و اطلاعات ڈاکٹر عواد سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں ہونے والی باتوں کی تفصیل قارئین پہلے ہی اخبارات میں پڑھ چکے اور ٹی وی چینلز کے ذریعے دیکھ اور معلوم کر چکے ہیں۔ لہٰذا ہم صرف ’’تجزیاتی‘‘ اور ’’تاثراتی‘‘ معاملات کو سامنے رکھیں گے۔ وزیراعظم نے سعودی نیوز ایجنسی کے ساتھ یمن کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے یمنی حوثیوں کے جارحانہ رویوں کے مد مقابل سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یمن کے حوالے سے مصالحانہ کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے بھی سعودی کردار کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یوں توقع ہے کہ اقتصادی، کاروباری رابطوں میں تیزی آئے گی۔ انشاء اللہ فلسطین اور کشمیری مسلمانوں کے حوالے سے بھی وزیراعظم نے سعودی قیادت کے سامنے مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے رفقاء کیلئے مدینہ منورہ میں حجرہ روضہ رسول ؐ کے دروازے کھولے گئے جبکہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے بھی ماشاء اللہ دروازے کھولے گئے اور بیت اللہ کے اندر انہوں نے نوافل ادا کئے۔ روضہ رسول ؐ کا دروازہ تو ہر مسلمان حکمران کیلئے ہمیشہ کھلتا رہا ہے حتیٰ کہ ایرانی صدور نے جب بھی حرمین شریفین کی زیارت کی تو ان کیلئے بھی یہ دروازے کھولے جاتے رہے ہیں۔ یہ انفرادیت عمران خاں اکیلے کیلئے نہیں تھی۔ ایک ’’تاثر‘‘ پر’’توجہ‘‘ دلانا مناسب سمجھتا ہوں۔ ہمارے اکثر حکمرانوں کیلئے بھی بیت اللہ کا دروازہ کھلتا رہا ہے مگر بیت اللہ کے اندر نوافل پڑھنے کی روایت جہاں آپ ؐ سے منسوب ہے ان نوافل کی ’’زیادہ‘‘ فضیلت تو کہیں بھی سنت نبوی ؐ میں بیان شدہ نہیں ہے ۔’’ حطیم‘‘ کے اندر نماز پڑھنے کو بھی آپ ؐ نے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے جیسا ہی قرار دیا ہے کہ حدیث میں یہ موجود ہے مگر جو کچھ علمائے حدیث نے بطور رہنمائی میرے سامنے پیش کیا ہے اس کے مطابق ’’مقام ابراہیم‘‘ پر نماز اور نوافل کو بیت اللہ کے اندر نماز پر فوقیت ہے کیونکہ ایسا کرنے کا حکم قرآن پاک میں موجود ہے دوسری فوقیت عمارت بیت اللہ میں صرف حجر اسود کو حاصل ہے اور رکن یمانی کو صرف چھونے کے حوالے سے اور رکن یمانی اور حجر اسود کے مابین (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) دعا کو طواف کے وقت پڑھنے کے حوالے سے احادیث اور سنت نبوی میں رہنمائی موجود ہے۔ لہٰذا حجرہ روضہ رسول ؐ اور بیت اللہ کے اندر جانے کا عمل زیادہ شوق اور ذاتی نفسیاتی دلچسپی کے ذیل میں آئے گا۔ وہاں ریاض الجنت میں نماز کی فضیلت احادیث میں بیان شدہ ہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف سعودی اور پاکستانی کردار اور موقف ہمیشہ یکساں رہا ہے۔ وزیراعظم نے سعودیہ کی اہمیت کو چونکہ تسلیم اور بیان کیا ہے جبکہ ثقافتی تعلقات بھی عملاً التوا ء ہو چکے ہیں لہٰذا موزوں اور زیادہ مناسب بات یہ ہو گی کہ حکومت عربی زبان کی لازمی تدریس کو سیکنڈری سکول تک پورے پاکستان میں نافذ کرائے۔ چونکہ وزیراعظم دینی مدارس ، سرکاری اور پرائیویٹ جامعات کیلئے یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ فوراً چاہتے ہیں تو دینی مدارس کیلئے ذرا زیادہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربی زبان کے لازمی تدریسی نفاذ کو ذرا اولین فرصیت میں طے کر دیں۔ 20 ستمبر کے اخبارات میں یہ خبر موجود ہے جہاں تک عربوں سے قریب تعلقات اور عربی کو ریاستی زبان بنانے کی بات ہے تو یہ پالیسی پہلے مسلم لیگی صدر سر آغا خان کی تھی۔ وہ اسماعیلی روحانی رہنما ہو کر بھی سنی مشرق وسطی سے تعلقات کا پروگرام رکھتے تھے اور عربی زبان کو حکومتی زبان بنانے کا بھی انکی سوانح سے وابستہ واقعات میں یہ بات میں نے پڑھ رکھی ہے۔ قائداعظم نے شاہ فاروق سے قاہرہ میں ملاقات کرکے انہیں قیام پاکستان کا حامی بناتے ہوئے پاکستان کو مشرق وسطیٰ کا ملک قرار دیا یہ عربی زبان کی اہمیت کا بھی خاموش اقرار تھا۔ہاں ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ فیصل، کرنل قذافی، الشیخ النہیان وغیرہ نے ساتھ مل کر عربوں سے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی تعلقات کو زندہ جاوید بنایا جس میں جنرل ضیائ، جنرل پرویز مشرف اور جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف اور نوازشریف نے بطور وزیراعظم زیادہ توجہ دی ہے۔ لہٰذا جب بھی عربوں سے تعلقات اور سعودیہ و امارات سے خصوصی تعلقات کی بات ہو گی تو اس کا ہرگز مطلب ایران دشمنی نہیں ہوگا۔ ویسے بھی صدام حسین کے ساتھ جنگ میں پاکستان نے خاموشی کے ساتھ ایران کی ’’اتنی‘‘ زیادہ مدد کردی تھی جس سے ابتدائی عہد کے ’’معاشی‘‘ اور 65کے ’’جنگی احسانات‘‘ سے کہیں زیادہ دے دیا گیا تھا۔ اس کالم کی تحریر کے دوران مجھے کئی افراد نے یمن کے حوثیوں کے مد مقابل سعودیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے وزیراعظم کے بیان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی قرارداد کے حوالے سے وضاحت طلب کی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے اکثر سیاستدان زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہوتے۔ ریاستوں کے مابین تعلقات اور طے شدہ خفیہ دفاعی معاہدوں کا بھی انہیں علم ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا عمران خاں خود اور ان کے اکثر رفقاء یمن کے حوالے سے اور سعودی مجبوریوں کے حوالے سے بھی مکمل آگاہ ہی نہ تھے۔ اسی لئے تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں یمن کے حوالے سے زیر بحث معاملے میں یمن میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی مگر حقائق سے لاعلمی کی بنیاد پر۔
چلئے دیر آید درست آید کہ وزیراعظم نے جدہ میں سعودی نیوز ایجنسی، اخبارات اور پاکستانیوں کے ساتھ بات چیت میں بھی کھل کر سعودیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا بیان دیا اور ہر مشکل وقت میں سعودی وافر مدد کا اقرار بھی کیا ہے۔آج23ستمبر کو تاسیس سعودی عرب کی (88) اٹھاسویں سالگرہ ہے جسے قومی دن کہا جاتا ہے۔ ریاض میں اس سال زیادہ فعال طور پر قومی دن کی تقریبات منعقد ہونے جا رہی ہیں۔ وزیراعظم نے ابوظہبی میں ولی عہد الشیخ محمد بن زید سے ملاقات کرکے اقتصادی امور سمیت باہمی طور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اگر یمن میں مصالحت کرانے کی ’’ہمت‘‘ اور ’’حیثیت‘‘ ہے ہماری تو بسم اللہ کریں متحدہ عرب امارات کے دو جزیرے (1)الطیف (الکبریٰ (2)الطیف الصغریٰ شاہ کے عہد کے ایران کے قبضے میں ہیں انہیں ایران سے واپس امارات کو دلوا دیں کہ انہی دو جزیروں کی وجہ تو ’’حدیدہ‘‘ بندرگاہ تک حوثیوں کو اسلحہ اور مالی مدد پہنچتی ہے جبکہ بحر احمر میں حوثیوں کو منفرد حیثیت حاصل رہی ہے ایک وضاحت کہ حدیدہ بندرگاہ اور سٹی کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ سعودی و اماراتی حملوں کی وجہ سے 50لاکھ بچے متاثرین جنگ ہیں۔ حضور حدیدہ سٹی کی اپنی مکمل آبادی تقریباً چھ لاکھ کے قریب ہے تو حدیدہ جنگ کی وجہ سے 50لاکھ بچے کیسے متاثرین ہو گئے ۔

مزیدخبریں