کوئٹہ (بیورو رپورٹ) بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے سال 2018-19ء کے پی ایس ڈی پی میں شامل سکیمات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر پی ایس ڈی پی کو بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق تشکیل دیا جائے ، صوبے میں دیرپا ترقی کے لئے طویل المدتی ترقیاتی پروگرام تشکیل دیا جائے، وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال کا کہنا ہے کہ آئندہ کابینہ اجلاس میں محکمہ پی اینڈ ڈی کی جانب سے پی ایس ڈی پی پر مفصل رپورٹ پیش کی جائے گی جسے ایوان میں بھی پیش کیا جائیگا، یہ بات انہوں نے ہفتہ کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی 2018-19ء پر بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیرصدارت ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے امن وامان سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے جس کی واضح مثال 14ستمبر کو ضلع پشین میں اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑانا ہے جس میں تین لیویز اہلکار موقع پر شہید اور دو شدید زخمی ہوئے اسی طرح 16ستمبر کو قلعہ سیف اللہ میں جنکشن چوک پر رسالدار لیویز محمد افضل اخترزئی کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا جس کی وجہ قلعہ سیف اللہ کے عوام میں شدید غم و غصہ کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے اس لئے اسمبلی کی کارروائی روک کر اس اہم اور فوری عوامی نوعیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایاجائے ایوان نے مذکورہ تحریک التواء کو بحث کے لئے منظور کرلیا اور اس پر 25ستمبر کے اجلاس میں بحث کی جائے گی ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ایس ڈی پی 2018-19ء کو زیر بحث لانے سے قبل حکومت بلوچستان کی مرتب کی گئی تجاویز ایوان میں لانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ حکومت کے سامنے ہے۔ قائد ایوا ن میر جام کمال نے کہا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہماری کابینہ نے پہلے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کا جائزہ لیا اور فیصلے کی روشنی میں سکیمات پر غور کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے کہا کہ جن ایشوز کو یہاں زیربحث لایا جاتا ہے ان کے دستاویزات پہلے ہمیں دیئے جانے چاہئیں تاکہ ہم ان کا جائزہ لے کر آئیں انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے تین مہینوں کا بجٹ بنایا تھا اب قومی اسمبلی نے ایک اور بجٹ پیش کیا ہے ہمیں بلوچستان کے عوام نے منتخب کیا ہے اور مینڈیٹ دے کر یہاں بھیجا ہے تاکہ ہم ان کے مسائل کو یہاں اجاگر کرکے ان کے حل کے لئے کام کریں معزز عدالت نے جو کہا ہے اس کے مطابق پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ صوبائی وزیرسردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے پورے سال کا بجٹ پیش کیا تھا جس کے بعد انتخابات ہوئے اور اب کئی علاقوں کے نمائندے تبدیل ہوگئے ہیں قائد ایوان نے کہا ہے کہ ہم پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلیں گے جس طرح پچھلی حکومت نے اپوزیشن کی حق تلفی کی اب ایسا نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند نے کہا کہ ہم نے جو بات کی ہے امید ہے کہ اس کا جواب قائد ایوان خود دیں گے یا متعلقہ محکمے کا وزیر جواب دے گا۔ متحدہ مجلس عمل کے سید فضل آغا نے کہا کہ یہ اجلاس اپوزیشن نے ریکوزیشن پر طلب کیا تھا اپوزیشن ارکان کو بات کرنے کا موقع دیا جائے فی الحال تو حکومت آپس میں ہی بات کررہی ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے جب اپوزیشن ارکان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے امید ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے۔ بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ 2018-19ء کی پی ایس ڈی پی کٹ پیسٹ ہے اس میں صرف ایک صفحے کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جسے پڑھا جاسکے مجھے اجلاس میں پی اینڈ ڈی کے حکام بھی نظر نہیں آرہے آئین کے آرٹیکل 33کے تحت ہمیں عوام کے اجتماعی فلاح کی بات کرنی چاہئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے قلعہ سیف اللہ اور پشین میں پیش آقنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میںقلعہ سیف اللہ میں پشین اور قلعہ سیف اللہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ۔پی ایس ڈی پی بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اگر ہم امن کی زندگی نہ جئیں تو نہ پی ایس ڈی پی کام آسکتی ہے نہ ترقیاتی منصوبے ہمارے کام آئیں گے۔ وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے ایوان کو بتایا کہ حکومت کی کوشش رہی ہے کہ امن وامان کی صورتحال کو بہتر سے بہتر بنایا جائے ، قلعہ سیف اللہ اور پشین میں جو لیویز اہلکار شہید ہوئے ہیں ان کے لواحقین کو معاوضہ اور سرکاری ملازمتیں دی جائیں گی حکومت شروع دن سے اس مسئلے پر سنجیدہ اقدامات اٹھارہی ہے اگر حکومتی و اپوزیشن اراکین چاہیں تو ہم ان کیمرہ بریفنگ دیں گے یہ ہمارے شہداء ہیں اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم نہیں گئے تو ہم ان کے بارے میں سوچ نہیں رہے۔ بی این پی کے میر حمل کلمتی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پر اس وقت نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے پہلے تجاویز پیش کی جائیںپھر اس پر ایوان میں بحث کی جائے تاکہ تمام چیزیں واضح ہوں ۔جمعیت العلماء اسلام کے ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت میں اب تک پی ایس ڈی پی سکیمات پر مکمل فیصلہ نہیں دیا گیا اس کی اگلی پیشی 18اکتوبر کو ہونی ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر مزید بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے اور اس میں عوام کے مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے سکیمات عوام کی مشکلات کو مد نظر رکھ کر ترتیب دی جاتی ہیں۔ صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ محرم الحرام اور یوم عاشور پر بہترین انتظامات پر صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جن کی کوششوں سے یہ اہم موقع بخیر و عافیت گزرا ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دوستوں نے یہاں پی ایس ڈی پی پر اپنے تحفظات اور خدشات کااظہار بھی کیا جس پر مجھے یقینا افسوس ہوا کیونکہ وزیراعلیٰ جام کمال خان پہلے ہی اس ایوان میں یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ پی ایس ڈی پی عوامی امنگوں کے عین مطابق ہوگا اور کسی شعبے یا حلقے کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ اگرچہ ایوان میں پی ایس ڈی پی پر تفصیلی بات چیت ہوچکی ہے مگر بدقسمتی سے صوبے میں دوایسے ادوار آئے کہ جہاں پی ایس ڈی پی مخصوص علاقوں میں استعمال ہوتا رہا دونوں سابق ادوار میں پی ایس ڈی پی کا آدھا حصہ وزرائے اعلیٰ ، وزرائے خزانہ اور پی اینڈ ڈی کے وزراء کے حلقوںمیں اور باقی آدھابجٹ پورے بلوچستان میں استعمال ہوتا رہا آج جو دوست حکومتی بینچ پر ہیں ماضی میں ان میں سے کئی دوست اپوزیشن میں تھے جو پی ایس ڈی پی اور دیگر حوالوں سے ناانصافیوں کے خلاف خود عدالت میں جاتے رہے یہاں تک کہ رواں مالی سال کا پی ایس ڈی پی بھی عدالت میں ہے۔ سابق سپیکر میر جان محمد جمالی نے کہا کہ موجودہ پی ایس ڈی پی وزیراعلیٰ میر جام کمال خان کو ورثے میںملا ہے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے سب سے پہلے سابق صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال سپریم کورٹ گئے تھے مگر جب وہ خود وزیر بنے تو انہوں نے بھی سب کچھ بھلادیا تھا ہمیں پی ایس ڈی پی کے ساتھ صوبے کی ترقی کا رخ بھی درست کرنا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی اقلیتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ جب میں نے رواں سال کے پی ایس ڈی پی کا مطالعہ کیا تو مجھے انتہائی افسوس ہوا کہ صوبے میں آباد چار لاکھ سے زائد اقلیتوں کے لئے صرف ایک کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن مبین خلجی نے کہا کہ کوئٹہ شہر کے حلقے چھ سے بڑھ کر نو ہوچکے ہیں شہر کی آبادی بھی بڑھ گئی ہے لیکن کافی عرصے سے پی ایس ڈی پی میں ایک ہی طرز کی سکیمات نظر آرہی ہیں اور ان سکیمات پر زمین پر کام نہیں ہوا لہٰذا پرانی سکیمات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی جائے اور کوئٹہ کو اس کے حلقوں کے حساب سے پی ایس ڈی پی میں نمائندگی ملنی چاہئے ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن بشریٰ رند نے کہا کہ اگرچہ بلوچستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں تاہم پی ایس ڈی پی میں ہمیں تعلیم پر توجہ دینی چاہئے سابق دور حکومت میں سکولوں میں واش رومز کی تعمیر کے لئے کثیر رقم رکھی گئی مگر یہ رقم استعمال نہیں کی گئی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ پی ایس ڈی پی ایک بہت بڑا معاملہ ہے اس پہ بات چیت کے لئے زیادہ وقت چاہئے لہٰذا آج کے اجلاس کی بجائے اسے آئندہ اجلاس کے لئے موخر کیا جائے۔ جمعیت العلماء اسلام کے اقلیتی رکن شام لال لاسی نے پی ایس ڈی پی میں اقلیتوں کو نظرانداز کئے جانے پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں اقلیتوں کے لئے ایک کروڑ روپے رکھے جانا ان کے ساتھ ناانصافی ہے اگر پی ایس ڈی پی کا ایک فیصد بھی اقلیتو ں کے لئے مختص کیا جاتا تو اسی کروڑ روپے ملتے انہوںنے وزیراعلیٰ پر زور دیا کہ وہ پی ایس ڈی پی میں اقلیتوں کے لئے فنڈز پر نظر ثانی کریں اور ضرورت کے مطابق فنڈز فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائیں ۔متحدہ مجلس عمل کے یونس عزیز زہری نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں شامل تمام سکیمات کا جائزہ لیا جائے گزشتہ دنوں میرے حلقے میں وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم نے دورہ کیا انہیں صرف چند مخصوص سکیما ت دکھائی گئیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن احمد نواز بلوچ نے کہا کہ میرے حلقے پی بی30سریاب میں پانی کی قلت ، کالج میں اساتذہ کی کمی اور صفائی کی صورتحال ابتر ہے نوجوانوں کے لئے کھیلوں کے میدان نہیں ہیں اور اب سننے میں آرہا ہے کہ سریاب روڈ توسیعی منصوبے میں پرانی آبادی کو بھی ختم کیا جارہا ہے جس پر عوام میں تشویش پائی جارہی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ایس ڈی پی میں پی بی30کے لئے ترجیحی بنیادوں سکیمات شامل کی جائیں بعدازاں ڈپٹی سپیکر بابر موسیٰ خیل نے ایوان کی مشاورت سے پی ایس ڈی پی پر بحث منگل25ستمبر کے اجلاس تک کے لئے ملتوی کردی ۔بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں گذشتہ دنوں قلعہ سیف اللہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہونے والے لیویز اہلکاروں اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ مرحومہ کلثوم نواز کی روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پانچ ارکان کی سردار صالح محمد بھوتانی ،میر عارف جان محمد حسنی ،وزیراعلیٰ کے مشیر میر عبدالرئوف رند ،ارکان اسمبلی حاجی محمد نواز ،ڈاکٹر ربابہ خان نے رخصت کی درخواستیں دیں تھیں جنہیں ایوان نے منظور کرلیا ۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اپنی نشستیں بھول گئے۔ اجلاس کے دوران بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن میر جان محمد جمالی نے اجلاس کی صدارت کر نے والے ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جس کے بعد اراکین کو انکی مخصوص نشست نمبر ایک بار پھر سے بتائے گئے۔ صوبائی کابینہ کا اجلاس 26ستمبر کو طلب کرلیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان کابینہ کا اجلاس 26ستمبر کو ہوگا جس میں پی ایس ڈی پی برائے سال 2018-19ء سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا جائیگا۔