آج کشمیر لاک ڈاؤن کی نصف سینچری مکمل ہو گئی ہے۔ پچاس کے سکور پر نریندرا مودی ناٹ آؤٹ ہیں۔ ان کے درندے فوجی پچاس دن سے کشمیریوں کا خون پی رہے ہیں، ان کے وسائل پر قابض ہیں، ان کی زندگی کو محدود کیے ہوئے ہیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کر رہے ہیں، ننھے منے معصوم کشمیریوں کو گرفتار کر رہے ہیں، ان معصوموں پر تشدد کر رہے ہیں، انہیں ہلاک کر رہے ہیں، خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کے واقعات ہو رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں کے باوجود نریندرا مودی پچاس کے سکور پر ناٹ آؤٹ ہیں اور ڈھٹائی سے وہ دنیا کے سامنے اپنے اس اقدام کو ناصرف اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں بلکہ اس کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔ اگر یہ اندرونی معاملہ ہے اور کشمیر میں بھارت کے اقدام کی بہت پذیرائی ہو سکتی ہے تو پھر پچاس دن ہو چکے ہیں لاکھوں فوجی کیوں تعینات ہے۔ اگر یہ اقدام اتنا ہی انسانی ہمدردی سے بھرا ہوا ہے تو آزاد انسانوں کو ان کے اپنے ہی گھروں میں قیدی کیوں بنا دیا گیا ہے۔ یہ پچاس دن مہذب دنیا کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔ اس عرصے میں بھارت نے معصوم اور نہتے کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ نریندرا مودی کی حکومت جمہوریت کے نام پر دھبہ ہے۔ وہ ملک جو دنیا کا سب سے بڑ جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے اس کی نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ ساری دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ ایسی جمہوریت ہے جہاں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ صرف ایک ہی سوچ ہے، ایک ہی مقصد ہے، ایک ہی لگن ہے ایک ہی مذہب ہے جو ہندوتوا کا ساتھ دے گا وہی بچے گا جو اس سوچ اور فلسفے کا مخالف ہے اس پر دنیا تنگ کر دی جائے گی۔ کشمیر میں اس کا سب سے بڑا اور عملی مظاہرہ دنیا دیکھ رہی ہے۔
جہاں آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ لاکھوں انسانوں کو قید کر دیا گیا ہے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی دنیا نے کچھ نہیں کیا۔ مذمتی بیانات ہیں، خدشات سے بھرے خطوطِ ہیں، بحث و مباحثہ ہے اس سے بڑھ کر کچھ ہے تو اسے ڈھونڈنا پڑے گا۔ دنیا میں کہیں کچھ مذمتی بیانات کے علاوہ نظر آئے، مظاہروں کے علاوہ کچھ دکھائی دے تو یقینا بریکنگ نیوز ہو اور عالمی میڈیا میں اسے نمایاں جگہ ملے۔
اگر دنیا میں کچھ نہ ملے تو صحافی وجیتا سنگھ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ دیکھ لیں وہاں سے ملنے والی اطلاعات دنیا کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر کسی کو حقیقی کشمیر دیکھنا ہے، بھارتی حکومت کے اقدامات دیکھنے ہیں۔ فاروق عبداللہ کے گھر کا منظر دیکھنا ہے، مقبوضہ وادی کے بازاروں کے مناظر دیکھنے ہیں، تعلیمی اداروں بارے معلومات لینی ہیں، دل جھیل کی ویرانی دیکھنی ہے، سرینگر کی مشہور سڑکوں کے حالیہ مناظر سمیت بہت کچھ مل جائے گا۔ فاروق عبداللہ کیوں نظر بند ہیں انہیں کن الزامات کے تحت نظر بند رکھا گیا ہے یہ تفصیلات بھی مل جائیں گی۔ یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ صحافیوں کے لیے قائم ایک مرکز میں ہر صحافی کو صرف پندرہ منٹ کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ دنیا یہ بھی جان جائے گی کہ بہت سی خبریں تاخیر سے بھیجنے، شائع یا نشر ہونے کی وجہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر بھارتی حکومت بیرونی دنیا میں یہ موقف اختیار کرتی ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں تو اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے۔ بھارتی حکومت کے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور بہادری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر وجیتا سنگھ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ کشمیر پریس کلب کا وفد صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے آئی جی سے بھی ملا ہے۔ وہ تمام مشکلات جو آئی جی کے علم میں ہیں اور وہ ان سے بخوبی واقف بھی ہیں ان کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ یہ حقائق جاننے کے بعد بھی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نریندرا مودی اور اس کے حواری ظلم نہیں کر رہے یا کوئی مودی حکومت کی حمایت کرتا ہے تو درحقیقت وہ انسانیت کا دشمن کہلائے گا۔
کشمیریوں کو آزادی ملنی چاہیے، یہ ان کا حق ہے انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ بھارت پانچ اگست سے آج تک بالخصوص ان کی زندگی اور مستقبل کے فیصلے کشمیریوں کی مرضی کے بغیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ دور حاضر کا نازک مسئلہ ہے، اسمیں تاخیر سے بہت بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ اس دوران جن افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کے قتل عام کی ذمہ دار بھی عالمی طاقتیں ہیں کیا ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے بھارت نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان دورہ امریکہ میں ایک مرتبہ دنیا کی توجہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر دلانے کی کوشش کریں گے۔ بیانات اور مذمت کی حد تک تو یہ سب ٹھیک ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا مرحلہ کیا ہے اور ہم کب تک مذمتی بیانات جاری کرتے رہیں گے؟؟؟؟