سیاسی حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی کے پس پردہ بیورو کریسی کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ افسر شاہی کے آسیب نے ہر حکومت کو ڈسا ہے۔ بعض بیورو کریٹ سرکاری تنخواہ پر پلنے والے وہ سرکاری ملازم ہیں جو حصول ملازمت سے قبل اخراجات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ تنخواہ کے محتاج ہوتے ہیں مگر جونہی یہ لوگ سرکاری عہدوںپر براجمان ہوتے ہیں سرکاری مراعات اور اختیارات کا نشہ انہیں بد مست کر دیتا ہے اور افسر شاہی کے خمار کی بناپر پھر یہ بیورو کریٹ عوام کو حقیر اور سرکاری فنڈز میں خرد برد کرنا اپنا پیدائشی استحقاق سمجھتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے سیاست دان جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آتے ہیں تو یہ بیوروکریٹ انہیں ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے ایک مکار جاگیر دار اپنے کسی غریب مزارعے کو استعمال کرتا رہتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف پہلی بار کرسی اقتدار تک پہنچی ہے۔ اِس حکومت میں سیاسی پارٹی بدلنے والے عادی سیاستدانوں کے علاوہ باقی ماندہ منتخب نمائندے پہلی مرتبہ اسمبلیوں تک پہنچے ہیں۔ گذشتہ دوسالوں کی حکومتی کارکردگی میں جتنی بھی خامیاں منظر عام پر آرہی ہیں اُن ناکامیوں کی کھوج لگائی جائے تو سر ا افسر شاہی تک پہنچتا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 120کے تحت صوبائی حکومتیں ہر مالی سال کے اختتامی ماہ جون میںآئندہ سال کے لیے اپنا مالیاتی بجٹ پیش کرتی ہیں۔ بجٹ دستاویزات کی تیاری میں بہت سے سرکاری محکمہ جات اور منتخب نمائندگان کی بجٹ تجاویز شامل ہوتی ہیں۔ مگر حتمی اور براہ راست تیاری کی ذمہ داری محکمہ فنانس کی ہی ہوتی ہے۔ مالی بجٹ کی تیاری ہر سال ماہ نومبر سے شروع ہو جاتی ہے اور یہ مختلف مراحل سے گز ر کر ماہ جون میں اسمبلی سے منظوری کی صورت میں مالیاتی بجٹ بن جاتا ہے۔پہلے وزیر خزانہ بجٹ تقریر پیش کرتے ہیں اور پھر منتخب نمائندگان بجٹ منظورکرتے ہیں ۔ با عث حیرت پہلو یہ بھی ہے کہ بیشتر ارکان اسمبلی کو بجٹ میں پیش کردہ اعد اد وشمار اور مالی امور کی الف ب بھی سمجھ نہیں آتی مگر پھر بھی وہ اپنے قائد ایوان کی آواز پر لیبک کہتے ہیں اور بجٹ کو پاس کر نے کا ووٹ دیتے ہیں۔ ۔منتخب نمائندگان کی بجٹ تجاویز میںکن مفادات کا سیاسی کھیل کھیلا جاتا ہے اِ س پر بھی پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ہر صاحب اقتدار جماعت بجٹ دستاویزات میں گذشتہ مالیاتی بجٹ اور موجودہ بجٹ کا تقابلی موزانہ لازمی بیان کرتی ہے۔ بالخصوص اپنی گذشتہ مالی سال کی کامیابیوں کا ذکر قابل فخر انداز میں پیش کرتی ہے۔امسال بھی حکومت پنجاب کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے 15جون 2020کو پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جسے بعد ازاں بجٹ اجلاس میں ہی منظور کر لیا گیا۔ ہر حکومت اپنے بجٹ کو عوام دوست جبکہ اپوزیشن حکومتی بجٹ کو الفا ظ کا گورکھ دھندہ قرار دیتی ہے۔ یہ پتلی تماشہ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں جاری ہے۔شاید عوام کے بیدار ہونے تک جاری بھی رہے گا۔ حکومت پنجاب کے سیکٹریری فنانس عبدا للہ خان سنبل ایک سینئر بیورو کریٹ ہیں اور اُن کی ٹیم نے بجٹ دستاویزات کو تیار کیا ہے۔ ہر صاحبِ حکومت جماعت عوام کی توجہ اور داد حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈہ مہم کا سہارا لازمی لیتی ہے مگر قابل افسوس تو یہ پہلو ہے بجٹ جوکہ ایک انتہائی اہم اورحساس دستاویزات کا مجموعہ ہوتا ہے اُس میں بھی اگر جھوٹ بالخصو ص ترقیاتی کاموں سے وابستہ جھوٹ بولا جائے تو پھر مالیاتی بجٹ کی سرکاری ساکھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدارکو بھی یقینی طورپر خبر نہیں ہوگی کہ بجٹ ٹیم نے فقط انہیں ڈیرہ غازی خان کے حوالے سے جن ترقیاتی منصوبہ جات کی کامیابی کی نوید سُنائی ہے اُن میں سے چند منصوبہ جات کی کامیابی جھوٹ پر مبنی ہے۔ بجٹ میں بہت سے ایسے منصوبہ جات بیان کیے جاتے ہیں جو کئی سال قبل مکمل ہو چکے ہیں مگر بجٹ ٹیم نے انہیں گذشتہ مالی-20 2019کی کامیابیوں میں شمار کر دیا ہے۔(جاری ہے)