مصطفیٰ کمال پاشا
14امریکی سینیٹرز نے ،جن میں ڈیمو کریٹ اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکو ایک تحریری شکایت بھیجی ہے جس میں انہو ں نے مودی کی زیر قیادت ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر آئینی اقدامات کے حوالے سے نہ صرف تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ مذہبی تعصب کے باعث اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق صلب کئے جا رہے ہیں امریکہ کیونکہ ایک عا لمی طاقت ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق کا محافظ بھی ہے اس لئے اسے چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جس سے مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی نا انصافیوں کا ازالہ کیا جا سکے ۔اس مراسلے پر 10ری پبلیکن اور 4ڈیموکریٹ سینیٹرز کے دستخط ہیں ،جس کے مطابق وہ ممالک جہاں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنائی جا رہی ہیں ،انہیں ’’مذہبی آزادی کا مجرم ‘‘ قرار دیا جائے ۔یہ بات ایک وفاقی کمیشن کی رپورٹ میں بھی کہی گئی ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادیوں کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے یہاں نہ صرف بھارتی آئین کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جا ری ہے بلکہ مذہبی بنیادوں پر انسانی حقوق بھی پائمال کئے جا رہے ہیں ۔اس لئے امریکی کانگریس ہندوستان کو ایک مذہبی دہشت گرد قرار ریاست دے اور اس کام میں ملوث ریاستی اداروں پر پابندیاں عائد کی جائیں ‘‘ ۔
یہاں دو باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ امریکی قانون سازوں کے ذہنوں میں امریکی عظمت کا بھوت سوار ہے وہ اپنے آپ کو عظیم قوم کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور امریکی آئین کو بالا تر یعنی سپریم دستاویز تصور کرتے ہیں امریکیوں کے مطابق انکی عظمت و سطوت کی بنیاد ان کا آئین اور اس میں دئیے گئے عظیم الشان اصول ہیں جن کی پاسداری اور ان پر عمل درآمدگی نے امریکہ کو عظیم قوم بنایا ہے امریکہ میںہر سطح کی امریکی قیادت اپنے ان آئینی اصولوں کی نہ صرف عملدراہے بلکہ انہیں دنیا سے منوانے میں بھی سرعت دکھاتی ہے ویسے وہ اصول عالمی نوعیت کے ہیں جیسا کہ شخصی آزادی ،مذہبی رواداری وغیرہ وغیرہ ۔امریکی دنیا میں ایسے اصولوں کی پاسداری کا بھاشن بھی دیتے ہیں اور موقع ملنے پر انہیں عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔یہ خط ایسی ہی مثبت امریکی سو چ کا عکاس ہے ۔
دوسری بات ،بھارت،امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے چین کے خلاف امریکی صف بندی میں بھارت ایک اہم کھلاڑی /مہرہ ہے امریکہ کی نواز شات اس پرہن کی طرح برس رہی ہیں سول نیوکلیئرٹیکنالوجی تک ،ہندوستان کی دسترس میں دے دی گئی ہے ۔مشرقی وسطیٰ میں امریکی اتحادی ،اسرائیل کے ساتھ بھی بھارت کے برادرانہ تعلقات ہیں ۔امریکی کانگریس میں بھارتی لابی کا بھی ہم بہت شور سنتے ہیں ویسے اس بات میں ہمیں شک بھی نہیں ہونا چاہئے کہ بھارتی شہری منظم انداز میں اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہیں امریکہ میں بھارتی شہریوں نے اپنے اثرات مرتب کر رکھے ہیں بہت سی امریکی کارپوریشنوں پر بھارتی براجمان ہیں آئی ٹی انڈسٹری میں بھی انہیں خاصی رسائی ہے پھر بھارتی شہری اپنے ملک کی فارن پالیسی کے مطابق چلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ان کے ووٹوں کا وزن محسوس کیا جاتا ہے ۔ہم نے بھارتی پذیرائی کا ایک مظاہرہ کچھ عرصہ پہلے دیکھا جب مودی اور ٹرمپ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سکرینوں پر نظر آئے ۔
امریکہ میں بسنے والے بھارتیوں نے مودی کو ایک استقبالیہ دیا جس میں امریکی صدر کو بھی مدعو کیا گیا تھا شاید یہ تاریخ میں پہلا واقعہ ہو گا کہ امریکی صدر کسی غیر ملکی سول اجتماع میں اسطرح شریک ہوا ہو جیسے ٹرمپ کو مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اجتماع گاہ میں داخل ہوتے دیکھا گیا ۔یہ باتیں موثر بھارتی لابی کی غماز ہیں ۔بھارتی لابی امریکی پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، ہم آج تک مسئلہ کشمیر پر امریکی حمایت حاصل نہیں کر سکے ۔بلا شبہ اس میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بیان کردہ بھارتی لابی کے اثرات بھی شامل ہیں امریکہ میں بھارتی شہری قوم پرست جذبات کے تحت سیاست کرتے ہیں اور پاکستان دشمنی اس سیاست کا بنیادی پتھر ہے ۔ اس کے باوجود امریکی سینیٹروں کی بھارت کے خلاف دہائی بہت ا ہم ہے ۔
بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ریاست ہے جہاں رنگ و نسل و مذہب کی تفریق کے بغیر ہر شہری کو آگے بڑ ھنے ،ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہیں کانگریس جو اس ملک کے خالق ہے نے بھی اسی نظر ہے کا پرچار کیا اور اس طرح ہندوستان کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت بنی آزادی کے بعد کانگریس سرکار نے ملک کو ایک سیکولر آئین دیا جس کے تحت مختلف مذاہب اور دیگر مذہبی اقلیتیں مل جل کر رہنے لگیں لیکن ہندوستان معاشرہ کیونکہ ہندو ازم پر مبنی تھا اور ہندو دھرم تنگ نظر ہے اس معاشرے میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں پھلتی پھولتی رہیں ان کا اصل ٹارگٹ مسلمان تھے کیونکہ مسلمانوں نے اس خطے میں 1000سال تک حکمرانی کی تھی اور اسلام ہی واحد دین تھا جو یہاں ہندو معاشرے میں گم نہیں ہوا بلکہ اس نے یہاں ایک مذہبی اقلیت پیدا کی اور وہ حکمران بنی۔مسلمانوںنے مذہبی رواداری اور انسانی مساوات کا درس دیا ۔اچھوت چھات کی نفی کی اور اس طرح اسلامی معاشرتی و تہذیبی غلبے کی راہ ہموار کی یہ بات ہندوئوں کو ہضم نہیں ہوئی آزادی کی تحریک کے دوران بھی ہندو تنظیموں کی کوشش رہی کہ مسلمانوں کو دبا کر رکھا جائے انگریز نے بھی لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت یہاں مذہبی تشدد اور قتل و غارت گری کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔کیونکہ انگریزوں کا ہدف بھی مسلمان ہی تھے اس لئے یہاں ہندو مسلم فسا دات کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔فرقہ بندہندو تنظیموں نے یہ کھیل خوب کھیلا لیکن پاکستان بننے سے نہ روک سکیں ۔
تقسیم ہند کے وقت ہندو ۔انگریز گٹھ جوڑ کر نتیجے میں ہمیں یعنی مسلمانوں کو اجڑا پاکستان ملا اثاثہ جات کی تقسیم میں بھی نا انصافی کی گئی ۔حیدر آباد و جوٹا گڑھ کی ریاستوں پر قبضہ کر لیا گیا اور کشمیر کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا ۔1948کی جنگ کشمیر میں کانگریسی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اقوام عالم سے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے گا ۔س نے بھارتی آئین میں کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دے رکھی تھی گویا آئینی طور پر کشمیر بھارت کا حصہ نہیں تھا لیکن جب بھارتیہ پارٹی کا عروج ہوا ۔نریندر مودی کی شکل میں ایک متعصب ہندو بھارتی حکمران بنا تو صدیوں کا مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کا بغض کھل کھلا کر سامنے آنے لگا نریندر مودی اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذریعے ہندوئوں کے لیڈر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا پھر بھارتی وزارت عظمیٰ پر فائز ہو کر اس نے آر ایس ایس کے افکار اور نظریات کے مطابق بھارت کی تشکیل جدید کرنا شروع کر دی ۔بابری مسجد کو رام مندر میں بدلنا اسی پالیسی کا حصہ ہے کشمیر کا بھارتی آئین میں خصوصی سٹیٹس ختم کرنا اور اسے بھارتی یونین میں شامل کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے گزرے ایک سال کے دوران کشمیر پر لاک ڈائون کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی منظم کاوشیں جاری ہیں ۔بھارت فسادات کی زد میں ہے۔
کشمیری مسلمانوں پر تشدد اور عرصہ حیات تنگ کرنے کے خلاف بھارت کے امن پسند ہندو ،سکھ ،عیسائی اور دیگر اقلیتیں مسلمانوں کے ساتھ سراپا احتجاج ہیں مودی سرکار ملکی وغیر ملکی پریس کے نمائندوں کو کشمیر جانے سے روک رہی ہے حد تو یہ ہے کہ بھارت نواز کشمیری لیڈروں کو بھی جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے ۔
مودی سرکار نے گزرے 7سالوں سے ہندوستان میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے کشمیریوں پر براہ راست کرفیو لاک ڈائون کے ذریعے زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے جبکہ مسلمانوں کے خلاف پورے ہندوستان میں جبر و تشدد کی ایک شدید لہر جاری ہے سرکاری ادارے ،ایجنسیاں انتہا پسند ہندو تنظیموں کی سر پرستی کر رہی ہیں اس طرح انہیں مسلمانوں کے خلاف بالخصوص تشدد کی کھلی چھٹی دی گئی ہے بھارت اس وقت مذہبی اقلیتوں کے لئے جہنم زار بن چکا ہے ۔مودی سرکار اپنی اصل پارٹی آر ایس ایس کے نظریات کو عملاً نافذ کر کے بھارت کو ہندو ریاست بنا نے پر تلی ہوئی ہے ابتدائی تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں ،سماجی اور تہذیبی سطح پر ہندو ازم کے فروغ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی ریاستی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ جیسے بھارت دوست ملک کے قانون سازوں نے بھی مودی سرکار کی اقلیتی مذہبی دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر دی ہے اور انہو ںنے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو مذہبی تشدد سے روکنے کیلئے امریکہ اپنی آئینہ ذمہ داریاں پوری کرے ۔
عالمی ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندو ستان میں مذہبی بنیادوں پر تشدد اور قتل و غات گری کے واقعات عام ہیں مختلف مذہبی اور انسانی گروہوں کے درمیان کشیدگی اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں سیاسی مخالفتیں اپنی جگہ لیکن مذہبی ،لسانی اور گروہی بنیادوں پر تشدد ہندو ستانی معاشرے میں عام ہو گیا ہے مودی سرکار کے انتخابات میں مذہبی تشدد کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔بھارتیہ جنتاا پارٹی ہندو سوراج یعنی ہندوئوں کی حکمرانی کی پرچارک ہے انکے عقائد کے مطابق ہندوستان ،ہندوئوں کا ہے ہندوئوں کیلئے ہے اور یہاں سب کو ہندو بن کر ہی رہنا ہوگا ۔ہندو ستان میں شدہی اور سنگٹھن کی تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں جن کا مقصد بھارت کو مسلمانوں کے وجود سے پاک کرنا اور انہیں دوبارہ ہندو بنانا تھا ۔
مودی سرکار کے آنے سے ایک بار پھر ایسی ہی فرقہ ورانہ سر گرمیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے ۔آبادی میں اضافے اور وسائل کی قلت بھی ایسی دشمنیوں کو بڑھاوا دیتی ہیں کیونکہ وسائل کے حصول کیلئے جدو جہد کے باعث مقابلہ شروع ہوتا ہے پھر متحارب مذہبی گروہ آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں معاشی جدو جہد کے دوران بھی مذہبی منافرتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور اسطرح قتل و غارت گری پھیلنے لگتی ہے عام طور پر ایسی وارداتوں میں مسلمان ہی نشانہ بنائے جاتے ہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گزرے سال ضمنی انتخابت کے دوران مذہبی تشدد کے واقعات میں 30فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ،مرکزی حکومت کی ہوم منسٹری کی طرف سے مہیا کردہ اعدادو شمار کے مطابق ایک صوبے میں کمیونل وائلنس کے 823واقعات رونماہوئے جس میں 133افرا د ہلاک اور 2ہزار سے زائد زخمی ہوئے ۔اتر پردیش کے ضلع مظفر گڑھ میں 1مہینے کے دوران کم از کم ایسے واقعات میں 60سے زائد ہلاکتیں ہوئیں ان واقعات کا باعث فرقہ ورانہ 60سے زائد ہلاکتیں ہوئیں ان واقعات کا باعث فرقہ ورانہ ہندو جماعتوں کے لیڈروں کی تقاریر تھیں جن کے باعث ہندو مسلم فسادات ہوئے ۔60سے زائد ہلاکتوں کے علاوہ اجتماعی آبرو ریزی کے 6واقعات بھی ہوئے صرف تین دنوں کے 150د یہاتوں کے ہزاروں مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا ۔حکومتی اعدادو شمار کے مطابق ابھی تک 27ہزار مسلمان اپنے ہی دیس میں ہجرت کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ۔
ایسے واقعات کے حوالے سے امن و امان قائم کرنے والے ادارے ’’حکم ‘‘ کے منتظر رہتے ہیں اور عام طور پر حکم یہی ہوتا ہے کہ کچھ نہیں کرنا ۔جب معاملات سر سے اونچے ہو جاتے ہیں قتل و غارت گری ہو جاتی ہے تو پھر امن و مان قائم کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں اتنی دیر تک ان واقعات کے ذمہ داران اپنا اپنا کام کر کے اپنی منزل تک واپس جا چکے ہوتے ہیں ۔ مسلمان اتنے تباہ حال املاک و اسباب پر ماتم کناں رہتے ہیں ،آج کل مودی سرکار کی زیر سایہ ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے اور یہ اس قدر نمایاں ہے کہ امریکہ جیسے بھارت دوست ملک کے سینیٹرز بھی چیخ اٹھے ہیں کہ بھارت کو مذہبی دہشت گرد قرار دیا جائے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،