پی ایچ ڈی کسی بھی یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین ڈگری ہوتی ہے۔ اس اعلیٰ ترین ڈگری کا مطلب تعلیم کے کسی ایک شعبے میں کمال فن حاصل کرتا ہے۔ دوسری جانب پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے والا ایک اچھا محقق بن کر کاروباری، معاشی یا معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے علاوہ تحقیق کے ذریعے ایجادات میں پی ایچ ڈی افراد اپنا کردار ادا کرتے ہیں تاہم پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے سے پہلے جامعات معیار تعلیم کے اصولوں پر عمل نہیں کریں گی تو نہ صرف طالب علم کے لیے ایک اچھا استاد اور محقق بننا مشکل ہو جائے گا بلکہ ملکی ترقی میں کبھی بھی ایک طالب علم اپنا کردار ادا نہیںکرسکے گا۔اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ہر ایم فِل کے طالب علم کو پی ایچ ڈی میں داخلہ مل سکتا ہے اور ان طلبہ کو مضامین بھی کم پڑھنا پڑیں گی،ایچ ای سی نے اس پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے بی اے کے طلبہ کو اختیار دیا ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے سکتے ہیں، مثال کے طور پر بی ایس کمپیوٹر سائنس کرنے والا اب پی ایچ ڈی مینجمنٹ سائنس میں داخلہ لے سکتا ہے مگر مختلف مضامین میں داخلہ لینے سے پہلے طلبہ کو چند اضافی سبجیکٹ پڑھنا پڑیں گے،اس کے علاوہ طلبہ کو پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے سے پہلے ٹیسٹ میں پاس ہونا، آخری ڈگری میں 3سی جی پی اے لینا اور داخلہ فارم کے ساتھ مقصد کا حلفی بیان لگانا بھی ضروری ہے،ایچ ای سی کی نئی پالیسی میں ڈگری کو مکمل کرنے کی شرائط میں کچھ ردوبدل بھی کیا ہے، اگر کوئی طالب علم 4سال کی بیچلر ڈگری یا اس کے مساوی ڈگری کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لیتا ہے تو اس کو 48کریڈٹ آورز کا کام کرنا پڑے گا، اس کے بعد ’’کمپری ہنسو‘‘ کے امتحان کو بھی پاس کرنا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ طالب علم کو کم ازکم 2سال کی رہائش کی شرط کو بھی اب پورا کرنا ضروری ہے، دوسری جانب پی ایچ ڈی تھیسز کو سپروائز کرنے کے لیے سپروائزر کو ایچ ای سی کی اجازت ہونا ضروری ہے اور یہ کہ سپروائزر اس جامعہ میں کل وقتی استاد بھی ہونا چاہیے یا کہ طالب علم کے وہ تھیسز سپروائزر کررہا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی طالب علم کو پی ایچ ڈی ڈگری دینے سے پہلے اس کے تھیسز کے معیار کا تعین کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ نئی پالیسی کے مطابق اب 2مقامی (پاکستانی) پروفیسر بھی پی ایچ ڈی تھیسز کے معیار کا تعین کرسکتے ہیں۔ ایچ ای سی کی نئی پالیسی کے مطابق پی ایچ ڈی طالب علم کو کم ازکم ایک تحقیقی مقالہ کسی بھی ایچ ای سی سے تسلیم شدہ یا اس سے اچھی درجہ بندی والے جریدے میں شائع کروانا ضروری ہے۔نئی پالیسی میں پی ایچ ڈی کو مکمل کرنے کی مدت میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، اب طالب علم کو کم ازکم 3سال سے زیادہ سے زیادہ 8سال کے اندر پی ایچ ڈگری کو مکمل کرنا ہے۔ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کی نئی پالیسی کو لاگو تو کردیا ہے مگر جامعات کو ایچ ای سی کی اس نئی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے سے پہلے کچھ نکات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ایچ ای سی نے نئی پی ایچ ڈی پالیسی میں مختلف شعبوں کے طالب علموں کو بھی اجازت دے دی ہے کہ وہ کسی بھی پی ایچ ڈی ڈگری پروگرام میں داخلہ لے سکتے ہیں اور داخلہ لینے کے بعد ایسے طالب علموں کو کچھ اضافی مضامین بھی پڑھنے پڑیں گے مگر نئی پی ایچ ڈی پالیسی اس بارے میں خاموش ہے کہ کتنے مضامین یا کریڈٹ آورز پڑھنے پڑیں گے اور ان کی کیا مدت ہو گی۔ اس کے علاوہ پی ایچ ڈی کی مدت مکمل کرنے کی مدت تین سال کم ازکم رکھی گئی ہے، اگر کوئی طالب علم چار سال بیچلر ڈگری کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لیتا ہے تو ایسے طالب علم کو پی ایچ ڈی کی تحقیق شروع کرنے سے پہلے کم ازکم 48کریڈٹ آورز کا کورس ورک مکمل کرنا پڑے گا، اس کا مطلب ہے صرف کورس ورک ہی 18ماہ یا دو سال میں مکمل ہو گا، اس کے بعد طالب علم کو کمپری ہینسو امتحان بھی پاس کرنا ضروری ہو گا۔ عام طور پر سب شرائط کو مکمل کرنے کے لیے کم ازکم تین سال کا عرصہ درکار ہے، پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طالب علم پی ایچ ڈی کو تین سال میں کیسے مکمل کرسکتا ہے؟ اس نکتے پر ایچ ای سی اور جامعات کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے،اس کے علاوہ ایک طالب علم کو کمپری ہینسو امتحان کو پاس کرنے کی بھی ضرورت ہے، اگر طالب علم اس امتحان کو پاس نہیں کرتا تو وہ پی ایچ ڈی جاری نہیں رکھ سکتا تو ایسی صورت میں طالب علم کا کیا مستقبل ہو گا، کیا ایسے طالب علموں کو ایم فِل کی ڈگری دی جائے گی یا اس کے علاوہ کوئی حکمت عملی ہو گی اور اگر ایم فِل کی ڈگری دی جائے گی تو شرائط کیا ہونگی؟ اس نکتے پر بھی جامعات کو پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
،مزید یہ کہ ایم فِل کر کے پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے والے طالب علم کو اپنے تحقیقی تجربے کی وجہ سے پی ایچ ڈی کی تحقیق کرنے میں آسانی ہوتی ہے جو کہ عمومی طور پر ایک بیچلر ڈگری والے طالب علم کو حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے موجودہ بی ایس ڈگری پروگرام خاص طور پر جامعات سے منسلک کالجز کا تعلیمی معیار مزید بہتر بنانا چاہیے۔ایچ ای سی کے مطابق نئی پالیسی بین الاقوامی معیارات کے مطابق بنائی گئی ہے مگر ابھی بہت سے نکتوں پر ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔