افسر شاہی یا بیورو کریسی ایک تنظیمی نظام ہے جو مخصوص قوانین اور طریقہ کار کے مطابق، حکومتی و انتظامی معاملات کے نظم و نسق کا ذمہ دار ہے۔ بیورو کریسی کا لفظ فرانسیسی لفظ بیورو سے ماخوذ ہے؛ جس کا مطلب ہے 'آفس یا ڈیسک' جبکہ اس کا لاحقہ یونانی لفظ کراٹا سے اخذ کیا گیا ہے؛ جس کا معنے حکومت، غلبہ یا طاقت کے ہیں۔ اس لحاظ سے بیورو کریسی کا مطلب ’ڈیسک کی طاقت‘ ہے۔
کالم کا عنوان بیورو کریسی کے حضور سرکاری افسران کی توجہ چند گزارشات پر مبذول کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ ویسے تو پروفیسر شاہد نسیم، ڈاکٹر بشری اور ڈاکٹر عبدالقیوم نے کتاب ’’بیوروکریسی کے حضور‘‘ میں نہایت خوبصورت انداز میں افسران شاہی کی زندگیوں کی حقائق بیان کئے ہیں۔ اس کتاب میں بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور صحافیوں کے انٹرویوز کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کے تجربات اور علم سے بھی استفادہ کیا جا سکے۔
ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے مسائل کے حل کے لئے سول بیورو کریسی کا کردار بنیادی نوعیت کا حامل ہے لیکن پی ایم ایس یا سی ایس ایس کرنے کے بعد جب عام شہری ’’خاص‘‘ ہو جاتا ہے اور یکدم انتظامی اختیارات اور طاقت اس کے ہاتھ میں آتے ہیں اور بسااوقات اکثر افراد اپنا اصل بھول جاتے ہیں۔ اگرچہ تخصیص ہر شعبہ ہائے زندگی کی طرح یہاں بھی موجود ہے مگر شنید ہے کہ بیورو کریسی کی ٹریننگ ہی اس اصول کے تحت کی جاتی ہے کہ سرکاری افسران اپنے آپ کو عام عوام سے الگ تھلگ سمجھیں۔ غالباً یہ برطانوی میراث کا عمل دخل ہے جس میں اس بات کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔
جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح بیورو کریسی میں بھی ایسے افسران پائے جاتے ہیں جو انسانیت کی خدمت کے عزم سے آتے ہیں، بہت سے افسران ایسے ہیں جو خود کو پبلک ’’سرونٹ‘‘ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں. مثال کے طور پر پولیس سروس کے ڈی آئی جی شہزادہ سلطان اور ایس ایس پی رانا ایاز سلیم کا شمار ایسے ہی افسران میں ہوتا ہے جو عوام الناس کے لئے درد دل رکھتے ہیں۔ اسی طرح سپیشل سیکرٹری سکولز ڈاکٹر سہیل شہزاد،( میرے مرحوم استاد انور قدوائی کے فرزند ) ایڈیشنل کمشنر امان انور قدوائی اور ڈائریکٹر پنجاب فوڈ اتھارٹی عمران شمس بھی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ڈاکٹر سہیل شہزاد کے پاس ہر وقت عوام کا جم غفیر ہوتا ہے مگر وہ صبر و تحمل سے عوام کو سنتے ہیں اور ان کی شکایات کا ازالہ کرتے ہیں۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب علی مرتضیٰ بھی اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ ان پر بہت اہم ذمہ داریاں ہیں، انتظامی امور کو انہیں احسن طریقے سے چلانا ہو گا اور اٹیکنگ اننگ کھیلنا ہو گی۔ اسد گیلانی سیکرٹری زراعت ہیں اور ہر فن مولا ہیں اور انسانیت لفظ کی تشریح جانتے ہیں۔سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر نہایت جانفشانی سے اپنی فرائض انجام دے رہے ہیں. وہ واحد سیکرٹری ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت میں تبادلے کا شکار نہیں ہوئے۔
دوسری طرف کچھ افسران ایسے ہیں جو ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہم بہت کام کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے ذریعے حکومت کو سبز باغ دکھاتے ہیں مگر جب کسی مسئلے کی طرف ان کی توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ فون اٹھانا یا میسج کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نورالامین مینگل اچھے انسان ہیں مگر لوگوں کی داد رسی کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی طرح سابق ڈی سی ساہیوال بابر بشیر بھی عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکامی پر او ایس ڈی ہوئے۔ کمشنر لاہور کے پروٹوکول آفیسر حافظ قیصر بھی اپنی دنیا میں گم رہتے ہیں انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کیپٹن عثمان کو زمینی حقائق بتلانا چاہئیں۔
میرا آبائی علاقہ پتوکی ہے، وہاں جب بھی بارش ہوتی ہے تو سیوریج کا پانی سڑکوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسامہ شیرون اسسٹنٹ کمشنر پتوکی تھے مگر صفر کارکردگی پر ٹرانسفر ہوئے اب عمر سرور کو چارج لیے کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔ ان کی شہرت تو اچھی ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ عوام الناس کے مسائل حل کرنے میں وہ کس قدر کامیاب ہو پاتے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب کو پہلی بار داد دیتا ہوں کہ سیالکوٹ کے دورے پر کام نہ کرنے والے افسران کو جس طرح سردار عثمان بزادر نے معطل کیا ہے اس سے لازماً دوسرے افسران کو یہ پیغام جائے گا کہ اب بہت صورت کارکردگی دکھانا ہو گی۔
حکومت پنجاب کو یہ سلوگن بنا لینا چاہیے کہ ’’کام نہیں کرو گے تو گھر جائو گے‘‘۔