انتخابی اصلاحات، سپیکر پارلیمانی رہنمائوں سے مشاورت کے بعد ارکان نامزد کرینگے

لاہور (فاخر ملک) انتخابی اصلاحات سے متعلق مختلف امور کو آگے بڑھانے کے لئے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی  بالآخر تشکیل کے مرحلہ میں داخل ہو گئی  جو کہ پارلیمانی سطح پر  حکومت اور اپوزیشن جماعتون کے مابین ڈائیلاگ  کی طرف بڑھنے سے محاذ آرائی کی بڑھتی ہوئی فضا میں ایک اچھا قدم ہے۔ جس میںحکومتی جماعت نے رواداری دکھاتے ہوئے ای وی ایم، آئی ووٹنگ اور الیکٹورل ریفارم بل کو بل قومی اسمبلی کے ایجنڈے سے نکالنے کا فیصلہ کیا یہ کمیٹی  انتخابی اصلاحات سے متعلق مختلف امور پر کام کرے گی۔ اس فیصلہ کے پس منظر میں مسلم لیگ (ن) کا دبائو اور مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے انتہائی اہم رول ادا کیا جبکہ اپوزیشن جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین  بلاول بھٹو بھی شامل تھے سے بھی مشاورت کی گئی۔ اگرچہ کمیٹی کی ہیئت اس کا ارکان کی تعداد اور اس کے ٹرم آف ریفرنس کا تعین باقی ہے۔ لیکن جن امور پر اتفاق رائے ہوا اس کے مطابق دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل ہو گی اور انتخابی اصلاحات سے متعلق مختلف امور پر کام کرے گی۔ جبکہ کمیٹی کے قیام کے لئے دونوں ایوانوں میں تحاریک پیش کی جائیں گی اور سپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان کو نامزد کریں گے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کہ وزیراعظم عمران خان نے  کمیٹی کے قیام کے فیصلہ سے قبل  مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان سے ملاقات کر کے مشترکہ کمیٹی کے قیام پرآمادگی ظاہر کی۔ اس ملاقات میں ای وی ایم، آئی ووٹنگ اور الیکٹورل ریفارم بل پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کا قیام  اور دیگر معاملات زیر بحث آئے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی اتفاق رائے کے لئے اپوزیشن رہنمائوں کو یہ کامیابی اس وقت ملی جب  رابطوں کے نتیجہ میں اس بل  کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے سے نکالنے کا حکم دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذوں جو چیلینجز درپیش ہیں ان کے مقابلہ کے لئے کم از کم پارلیمانی سطح پر اور کم از کم ایجنڈہ پر مذاکرات مستقبل میں حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے تمام سٹیک ہولڈروںکے رویہ میں سنجیدگی قومی امور پر مفاہمت کا نیا موڑ لے سکتی ہے۔ اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر حکومت کا نرم رویہ اس امر کا غماز ہے کہ ملک کو درپیش دوسرے مسائیل کے بارے میں بھی افہام  و تفہیم کا رویہ  اپنانے کے لئے کام شروع ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن