اسلام آباد (وقار عباسی/ وقائع نگار + نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے خاتون جج کے خلاف بیان پر زبانی طور پر معافی مانگنے پر ان کے خلاف فردجرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کرتے ہوئے تحریری بیان حلفی عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں چئیرمین پاکستان تحریک انصاف کے زبانی بیان کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے روسٹرم پر ان کے دیئے گئے بیان کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ بنا دیا ہے۔گذشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستارپر مشتمل پانچ رکنی بنچ میں سماعت کے دوران عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے۔ عدالتی معاون منیر اے ملک اور مخدوم علی خان، اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف، ایڈیشل اٹارنی جنرل منور دوگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور دیگر بھی عدالت پیش ہوئے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، ملائکہ بخاری، شبلی فراز اور دیگر بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ جبکہ شاہ محمود قریشی کا پاس نہ ہونے پر انہیں کمرہ عدالت داخل نہ ہونے دیا گیا اور بعدازاں شاہ محمود قریشی بھی کمرہ عدالت پہنچ گئے۔ سماعت سے قبل عمران خان کیساتھ سادہ لباس میں آنے والے گارڈز نے کمرہ عدالت میں صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہاکہ آج ہم صرف فرد جرم عائد کریں گے، آج ہم صرف چارج پڑھیں گے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اس سے پہلے ملزم عمران خان کچھ کہنا چاہتے ہیں، آخری سماعت پر ہم نے بولنے کی اجازت کیلئے استدعا کی تھی۔ اس موقع پر عدالت کی اجازت ملنے پر عمران خان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں نے 26 سال عدلیہ کی آزادی کے لیے کوشش کی، کوئی بھی خودمختار عدلیہ کے لیے کوشش نہیں کرتا، میں نے ارادی طور پر خاتون جج کو دھمکی نہیں دی تھی، میں نے اپنے تقریر میں لیگل ایکشن لینے کا کہا تھا، میں خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں، میں آئندہ اس قسم کی کوئی بات نہیں کرونگا، جیسے جیسے مقدمہ آگے چلا، مجھے سنجیدگی کا احساس ہوا، میں نے خاتون جج کیخلاف لیگل ایکشن کی بات کی تھی، اگر آپ کہیں تو خاتون جج کے پاس جا کر یقین دلاؤں گا کہ نہ میں، نہ میری پارٹی آپ کو نقصان پہنچائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے لئے توہین عدالت کیس کبھی بھی اچھا نہیں لگتا، مگر جس انداز میں اور جس عوامی اجتماع میں آپ نے کہا وہ زیر غور تھا،آپ نے اپنے الفاظ واپس لئے ہم سراہتے ہیں، عدالت آج چارج فریم نہیں کرے گی، آپ کا بیان ریکارڈ پر ہے اسے تحریری شکل میں دے دیں، آپ کے بیان حلفی کو ہم consider کریں گے، آج چارج فریم نہیں کر رہے، بیان حلفی جمع کرائیں، ہم دیکھیں گے، پھر آگے کی کارروائی کریں گے، آپ کے بیان حلفی جمع کرانے کے بعد ہم فیصلہ کریں گے۔ عمران خان نے کہاکہ اگر عدالت مطمئن ہونے کے لیے کچھ اور چاہتی ہے تو بتائیں۔ عدالت نے کہاکہ آپ بیان حلفی جمع کرائیں، ہم آپکے بیان کی تعریف کرتے ہیں، ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے آپ کو خاتون جج کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آپ بیان حلفی جمع کرا دیں اور آئندہ محتاط رویہ اختیار کریں۔ اس موقع پر وکیل نے کہاکہ کیا ہم بیان حلفی کل جمع کراسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ایک ہفتہ دیتے ہیں اس دوران کبھی بھی کروا دیں۔ عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت3 اکتوبر تک کیلئے ملتوی کردی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔ تحریری فیصلے میں عدالت عالیہ نے عمران خان کے معافی کے بیان پر اطمینان کا اظہارکر دیا۔ عدالت نے کہا عمران خان کی جانب سے معافی پر مطمئن ہیں تاہم عمران خان بیان حلفی دیں تو اسے زیر غور لایا جائے گا، تحریری فیصلے میں عمران خان کی روسٹرم پر کی گئی مکمل گفتگو تحریری حکمنامے کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ دریں اثناء تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے جو معذرت کی غیر مشروط معافی اس کو نہیں کہتے۔ عمران خان نے کہا کہ میرا مقصد یا ارادہ توہین کا نہیں تھا۔ اگر خاتون جج سمجھتی ہیں میں نے ریڈ لائن کراس کی ہے تو معافی مانگ سکتا ہوں۔ نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بالکل غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔ غیر مشروط معافی کا مطلب توہین عدالت کا اقرار کرنا ہے‘ کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ توہین عدالت کی ہے۔ عمران خان کی پوزیشن یہ تھی کہ میں نے توہیں عدالت نہیں کی۔ اگر عدالت کو یہ تاثر ملا ہے تو ہم اس کی معذرت کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ ہم نے کوئی توہین عدالت نہیں کی۔ حلف نامے میں بھی یہی لکھیں گے۔ دونوں جواب میں کہا کہ عدالت کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ توہین عدالت نہیں کی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جب آرمی چیف کی مدت ختم ہوتی ہے تو تعیناتی ہونی چاہئے۔ موجودہ حکومت اگر تعیناتی کے وقت ہو تو کیوں نہیں کر سکتی۔ حامد خان نے کہا کہ میں فواد چودھری کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ اختلافات ہوتے ہیں‘ مجھے کوئی تحریک انصاف سے الگ نہیں کر سکتا۔ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس سے متعلق میرا پارٹی میں اختلاف رہا ہے۔
عمران کی معافی ، فرد جرم موخر
Sep 23, 2022