سعودی عرب پاکستان ،امت کے روشن ستارے قصہ مختصر

پاکستان اور سعودی عرب امت مسلمہ کے دو روشن ستارے ہیں۔سعودی عرب مسلمانوں کے مقدسات کا مرکز اور امین ہے۔ سچ یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنی بے پناہ خدمات اور جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہ حرمین شریفین کی بہترین دیکھ بھال کرنے والے لوگ ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کا ساتھ بہت پرانا اور تب سے ہے جب نوزائیدہ مملکت سعودی عرب وجود میں آئی تھی۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں کہ جب سعودی عرب کی بنیاد رکھی گئی تو برصغیر کے علمائے کرام کا ایک وفد مولانا  ثنااللہ امرتسری  کی قیادت میں نقدی اور عطیات لے کر سعودی عرب گیا۔سعودی عرب وہ ملک ہے جس نے ہر کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور بے لوث ساتھ دیا۔ 2004 کے زلزلہ میں سعودی عرب نے امریکہ سے زیادہ پاکستان کے عوام کی مدد کی۔ امداد کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بڑی تعداد میں گھر بنا کے دیے۔
پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے رسمی تعلقات 1951 میں شروع ہوئے۔شاہ فیصل کے زمانے میں ان تعلقات کو عروج ملا۔مسئلہ کشمیر پاکستان کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔اور اس پر پاکستان کے موقف کا جنہوں بے سب سے زیادہ ساتھ دیا۔ان میں سے ایک سعودی عرب ہے۔ستمبر 1965 کی جنگ میں یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے پاکستان کی ہر لحاظ سے مدد کی اور کھل کر ساتھ دیا۔
اپریل 1966  میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔اور اسلام آباد میں ایک تاریخی مسجد بنانے اور اس کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا۔دنیا آج اس مسجد کو شاہ فیصل مسجد کے نام سے جانتی ہے۔پاکستان نے اس محبت کے جواب میں لائل پور کا نام تبدیل کر کے فیصل آباد رکھا۔
1967 میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تعاون کا تاریخی معاہدہ ہوا۔جس کے تحت سعودی عرب کی بڑی، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔اپریل 1968 میں سعودی عرب سے برطانیہ کے ماہرین جو وہاں تربیت دے رہے تھے ان سب کی جگہ پاکستانی ماہرین کو دے دی گئی ہے۔اور اس طرح محبت اور اخوت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اس کو موجودہ دور میں مزید تقویت ملی۔پاکستان میں اس وقت میجر جنرل عواد عبداللہ الزھرانی سعودی عرب کے ملٹری اتاشی ہیں۔وہ پاکستان کو اپنا دوسرا وطن مانتے ہیں۔کووڈ کے دوران جب سفارت کاروں کی اکثریت نے اپنی فیملیوں کو اپنے اپنے وطن رخصت کر دیا۔لیکن میجر جنرل عواد عبداللہ کی فیملی یہیں رہی۔جنرل عواد نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ملٹری تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔اور ہر وقت کوشاں ہیں۔کے یہ تعلقات مزید بہتر اور مضبوط سے مضبوط تر ہوں۔پاکستان کی طرف سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان تعلقات کو ایک نیا رخ دیا۔اور دونوں ملکوں کو مزید قریب کیا۔پاکستان کی معاشی مشکلات میں اگر سعودی عرب ساتھ نہ دیتا تو ہم بہت مشکل میں پھنس جاتے۔ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے جو تین ارب ڈالر بطور ریزرو اسٹیٹ بنک میں رکھے تھے۔ان کی مدت ختم ہو رہی تھی ،خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد سمو الامیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت رشیدہ نے اس کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کر دی ۔سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانے کے لیے بھی بہت اہم کوششیں ہوئی ہیں۔پاکستان میں سعودی عرب کے موجودہ سفیر جناب نواف بن سعید المالکی نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ریاض میں انھوں نے سعودی سرمایہ کاروں کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔اور یہاں پر سرمایہ کاری لے وسیع مواقع موجود ہیں۔چنانچہ ان کوششوں کے نتیجہ میں سمو الامیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے ایک بھاری بھرکم وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا۔ اور بہت سارے تاریخی معاہدوں پر دستخط کیے۔اور امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی اس طرح کا ایک مزید دورہ ہو گا۔
پاکستان کے عوام سعودی عرب کے ساتھ بے پناہ لگاو اور محبت رکھتے ہیں۔2014  میں جب یمن کا تنازعہ شروع ہوا اور حوثی باغیوں نے ارض حرمین پر میزائل برسانے شروع کیے ،تب پوری پاکستانی قوم سعودی عرب کی حمایت میں کھڑی ہو گئی۔اسلام آباد میں تحریک دفاع حرمین شریفین کے زیر اہتمام سینیٹر پروفیسر ساجد میر اور سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کی قیادت میں ایک تاریخی کانفرنس منعقد ہوئی۔جس میں پاکستان کی مذہبی اور قومی قیادت نے شرکت کی اور عزم کیا کہ وہ ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔مولنا علی محمد ابو تراب صدر تحریک دفاع حرمین صاحب زادہ شاہ اویس نورانی نائب صدر ،مولانا فضل الرحمن خلیل راقم کی کاوشوں سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ  مولنا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ،وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف،مولانا حامد الحق حقانی سمیت قومی سیاسی قیادت نے شرکت کی۔اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔
موجودہ سعودی حکومت کے دور میں حرمین شریفین کی تاریخی توسیع ہوئی ہے۔حجاج اور معتمرین کے لیے ہر دن زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔اس سال پاکستان سے حجاج کرام کو روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کے ذریعے امیگریشن کی سہولت یہاں ہی فراہم کی گئی اور اس طرح سعودی عرب کے ائر پورٹس پر گھنٹوں کا جو انتظار کیا جاتا تھا وہ ختم ہو گیا۔اور حجاج جدہ ائر پورٹ سے اس طرح باہر نکلے جس طرح اسلام آباد اور کراچی کے ائرپورٹ پر باہر جاتے ہیں۔الحمد اللہ اس سال بھی حج کی سعادت حاصل ہوئی۔قدم قدم پر سہولیات کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا۔آئمہ حرمین شریفین بھی گائے بگائے پاکستان کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔اور پاکستان کے عوام ان سے اپنے لگاو اور محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
2018 میں سینئر امام حرم شیخ صالح بن حمید پاکستان تشریف لائے تو اس وقت کے وفاقی وزیر مواصلات سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بات کی اور امام صاحب کو کابینہ کے اجلاس میں مدعو کیا گیا اور وہاں نے اراکین کابینہ کے ساتھ ملاقات اور وعظ و نصیحت کی۔2019 میں امام حرم شیخ عبداللہ عواد الجھنی پاکستان تشریف لائے۔اسلام آباد اور لاہور کے دوروں میں پاکستان کے عوام نے ان سے بے پناہ لگاو کا اظہار کیا۔سعودی عرب کا ایک ہم ادارہ رابطہ عالم اسلامی ہے۔اس وقت الشیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی اس کے سیکرٹری جنرل ہیں۔رابطہ عالم اسلامی پوری دنیا میں اسلام کی اشاعت اور ترویج کے لیے بھرپور کام کر رہا ہے۔ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے اس کو مزید وسعت دی ہے۔اسلام کے حوالے سے اس وقت مغربی دنیا شدید غلط فہمی شکار ہے۔ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے خصوصی اقدامات کیے۔انھوں نے خود مغرب کے دورے کیے ۔عیسائی اور یہودی علما کو اکٹھا کیا۔اور مکالمہ کا آغاز کیا۔ان کی یہ جدوجہد جاری ہے۔اور اس کے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے۔پاکستان میں جناب سعد محمود الحارثی اس کے سربراہ ہیں۔اور انھوں نے کووڈ کے دوران اور موجودہ سیلاب میں بھرپور کام کیا۔اور متاثرین تک امداد پہنچائی۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی اگلے ماہ پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ان کا یہ بھی اعزاز ہے کہ انھوں نے اس سال حج کے اجتماع میں خطبہ بھی دیا اور امامت بھی کی۔امید ہے کہ اس دورے سے مزید فوائد حاصل ہوں گے۔
۔پاکستان اور سعودی عرب دوستی حکومتوں کی بجائے عوام کی دوستی ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو،دوستی کا یہ سفر انشااللہ جاری رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن