وطنِ عزیز آج کل بڑے بحران کی زد میں ہے۔ خصوصاً معیشت کے حوالے سے اس کے حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خدا نہ کرے یہ ملک بڑی تیز ی سے ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے۔ کچھ لوگ اسے گزشتہ تین چار سالہ دور کے’’ عمرانی ‘‘اقدامات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ زیادہ تر کا خیال ہے کہ موجود ہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ ہماری دانست میں یہ دونوں باتیں کسی حد تک درست ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے دورِ میں ملکی معیشت کا جو بیڑا غرق کیا اس کی تفصیل تقریباً سامنے آچکی ہے۔ بلکہ وہ تو اب بھی اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کو بیرونی ممالک سے ملنے والی امداد کسی نہ کسی طرح رکوا دی جائے تاکہ یہ حکومت دوسرے لفظوں میں یہ ریاست معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑی نہ ہوسکے۔
جہاں تک حکومت وقت کا تعلق ہے ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ پی ڈی ایم نے کیا سوچ کر معیشت کی اس ڈوبتی ناوکے چپو سنبھالے تھے۔ شنید میں آیا ہے کہ ان کو یہ خطرہ تھا کہ عمران خان ریاستی اداروں سے مل کر ان کے خلاف چلائے جانے والے مقدمات میں انہیں قید و بند کی سزائیں دلا دے گا۔ یا انہیں نا اہل کرا دے گا۔ دوسرا انہیں یہ ڈر تھا کہ تحریک انصاف اس دوران مقتدر حلقوں کے ساتھ مسلسل ایک پیج پر رہی تو 2023ئ کے انتخابات میں اس کے حصولِ اقتدار کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے یہ کڑوی گولی کھالی ۔ اور اب معذرت کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کا حال اس سانپ جیسا ہے جس نے مینڈک تو اٹھا لیا تھا لیکن اس کے بعد اسے نگل سکتا تھا اور نہ اگل سکتا تھا۔ دریں اثناء یہ بھی سنا گیا کہ وزیر اعظم نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس سلسلے میں ان کی تقریر بھی لکھی گئی تھی مگر ان کی اتحادی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی اورجے یو آئی نے انہیں یہ قدم اٹھانے سے منع کر دیا۔دراصل حکومت کے اتحادیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے کئی ایک کو زندگی میں پہلی مرتبہ جھنڈے اور نیلی بتی والی کاروں پر سواری کا موقع ملا ہے۔ وہ جب آگے پیچھے ہوٹر والی گاڑیوں کے ساتھ سڑک پر نکلتے ہیں تو اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا کا باسی خیال کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جتنا مزید ممکن ہو اقتدار کے اس جھولے میں جھولتے رہیں۔ رہے اس کے نقصانات تو انہیں معلوم ہے کہ وہ ن لیگ کے کھاتے میں ہی پڑیں گے۔ ووٹ بینک متاثر ہو گا تو ن لیگ کا۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان حالات میں اب بال میاں شہباز شریف کے کورٹ میں ہے۔ انہیں سوچنا ہے کہ اگر وہ اقتدار پر بدستور براجمان رہے تو ان کی سیاسی ساکھ کا گراف اوپر جائے گا یا نیچے ۔خصوصاً ا س صورت میں کہ اب تو ان کے خاندان کے افراد بھی ان کے’’ مشکل ‘‘فیصلوں سے بریّت کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ مریم نواز کے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کابینہ میں مسلسل اضافے کے حوالے سے بیانات اس کی واضح مثال ہیں۔ جبکہ ذرائع کے مطابق عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نہ صر ف وہ بلکہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار بھی پی ڈی ایم کے حکومت بنانے اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ فوری طور پر وسط مدّتی انتخابات کی طرف جانا چاہتے تھے جس کا اْس وقت کی اپوزیشن کو یقینا فائدہ ہوتا۔ اور اب آئیے سابق وزیر اعظم عمران خان کی آئے روز کی دھمکیوں کی طرف ۔لگتا ہے کہ وہ بس پاکستان کو بند کرنے کی کال دینے ہی والے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ وزیر داخلہ رانا ثنائ اللہ کے بقول ’’اِس دفعہ اْن کا پچیس مئی سے بھی برا حشر کریں گے‘‘۔ اگر یہ دونوں اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہے تو خاکم بدہن پاکستان کو سری لنکا بننے سے کون روک سکتا ہے؟ اندریں حالات گھوم پھر کر بات یہیں آکر ٹھہرتی ہے کہ فریقین کو ایک میز پر لایا جائے جس کی طرف خان صاحب کے اپنے صدر یعنی صدر مملکت عارف علوی بھی توجہ دلا چکے ہیں لیکن یہاں بھی خانِ اعظم کی یہ ضد اور ہٹ دھرمی آڑے آرہی ہے کہ اس سے پہلے انہیں الیکشن کی تاریخ دی جائے ۔ستم بالائے ستم آدھے سے زیادہ ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے اور عمران خان کو الیکشن کی پڑی ہے۔ کہاں گیا وہ اربوں روپیہ جو انہوں نے ٹیلی تھون کے ذریعے اندرون و بیرون ملک سے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے جمع کیا ہے؟ جلسوں کیلئے تو ان کے پاس وقت ہے ۔لٹے پٹے خانماں برباد ہزاروں لاکھوں لوگوں کی خبر گیری کیلئے وہ فارغ نہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ ان کے دل میں غریبوں کیلئے بڑا درد ہے۔ چہ خوب ۔
آخر میں جناب شہباز شریف کیلئے ایک مشورہ کہ وہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلدی کریں ۔حالات اْن کیلئے قطعاً موافق نہیںاور پھر بجلی اور تیل کے بعد اب گیس اور آٹے کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے ان سے کیسے نمٹیں گے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ رات ہی رات میں دوست دشمن بن جاتے ہیں ۔تخت الٹ دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ بھی خان صاحب کی طرح ضد نہ کریں ۔اصلاحِ احوال کی جو بھی صورت ہو اسے جلد از جلد روبہ عمل لائیں اور یہ خیال دل سے نکال دیں کہ عمران خان اب لاڈلے نہیں رہے۔ ریاست کا ایک ادارہ انہیں کندھے سے اتارتا ہے تو دوسرا فوراً گود لے لیتا ہے۔