عمران خان کی”تحریک انصاف “ عروج وزوال

Sep 23, 2022


عمران خان نے جن اہم ساتھیوں کے ساتھ مل کر”تحریک انصاف “ کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی تھی وہ ان کے آمرانہ اور غیرسیاسی طرزعمل سے مایوس ہوکر آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے گئے اور انکو تنہا چھوڑ گئے ۔ کئی دفعہ ملک میں جنرل الیکشن ہوئے تو یہ کلین بولڈ ہوکر ناکام ہوتے رہے البتہ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے بچے کھچے سب ساتھیوں کو شکست ہوئی لیکن آمر کی ناجائز حمایت کرنے کی وجہ سے پی ٹی ¾آئی کو صرف اپنی ایک ایک سیٹ مل پائی ۔ یہ پرویز مشرف کی ضرورت سے زیادہ حمایت کی وجہ سے امید رکھ رہے تھے کہ انہیں وزیراعظم بنایا جائے گا۔ الیکشن رزلٹ آنے کے بعد ڈکٹیٹر پر ویز مشرف نے ان سے کہا ”بڑاشور سنتے تھے پہلومیں دل کا ۔جو چیر ا تواک قطرہ خون نکلا۔ بھلاایک سیٹ والے کو وزیراعظم کیسے بنایا جا سکتا ہے ©“۔ جنر ل پرویز مشرف کے دور کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں آئیں اسٹیبلشمنٹ کو انکی کار کردگی پسند نہ آئی تو انہوں نے ان کو تھپکی دی ۔ کئی بدنام سرمایہ داروں اور سیاست دانوں نے 
بھی ان پر سرمایہ کاری شروع کردی اسکے باجود 2013 ءکے الیکشن میں انہیں صرف 35سیٹیں ملیں جس سے وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا ۔صوبہ خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں حکومت بنانے کیلئے انکے ارکان پورے نہیں تھے۔ لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف کی مہربانی نے ان کو کئی دوسرے آزادار کان کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب کرایا اور انہوں نے اپنی مسلم لیگ کی حکومت نہ بنائی ۔
یہ مرکزمیں وزیراعظم میاں نواز شریف کی الٹی سید ھی مخالفت کرنے لگ گئے ۔ خفیہ طاقتوں کے اشارے پر 2014ءمیں اسلام آبادمیں 126دن کا دھرنا دیا۔ میاں صاحب کے مخالفین نے انکی ظاہر اًاور خفیہ مدد کی ۔ جس میں کئی منفی اور تخریب کارانہ نعرے لگاتے رہے البتہ کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہ کر پائے ۔ اس سے ملک کو بھاری نقصان ہوا جس کی ان کو کوئی پرواہ نہ ہوئی ۔ 2018ءکے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر Electable سیاستدانوں کو شامل کر کے اقتد ار میں آنے کیلئے کئی ناقابل عمل جذباتی اور جوشیلے نعرے لگائے اور وعدے کئے جن میں سے کوئی بھی اپنے 4سالہ دورمیں پورے نہ کرپائے البتہ انہیں 342کے ایوان میں 125کے قریب سیٹیں مل گئیںجو وزیراعظم بننے کیلئے ناکافی تھیں زمینی طاقتوروں نے آزاد ارکان اور دوسری پارٹیوں کو ان کے ساتھ ملا کر انکی حکومت بنادی ۔ اپنے دورحکومت میں کوئی بھی انتخابی منشور میں دیا ہوا وعدہ پورانہ کر سکے اور ناقص ترین کارکردگی کا ثبوت دیا۔ ملک کی معیشت، معاشرت ،سیاست اوراخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ۔ جمہوریت کے چوتھے ستون صحافت پرناروا پابندیاں لگاکر اس کا گلا گھونٹ دیا ۔ ملک کوکنگال کر کے ڈیفالٹ کے کنارے پہنچادیا۔ انکی اس بدترین کارکردگی کو دیکھ کر معززممبران پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کے ذریعے ان کو باہر نکال پھینکا اورا نکی حکومت ختم کردی ۔ اس وقت سے اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہوئے روپیٹ رہے ہیں ۔ ملکی سا لمیت کے خلاف عجیب و غریب حواس باختہ باتیں کرتے ہیں کہ خدا انخواستہ میری حکومت نہ ہونے سے یہ ملک 3حصوں میں تقسیم ہوجائے گا ۔ قابل احترام ججز ، عدالتوں ، مسلح افواج کی قیادت اور انتظامیہ کے خلاف توہین آمیز باتیں کرتے رہتے ہیں انکے ساتھی سوشل میڈیا پر توہین آمیز ٹرینڈ چلاتے ہیں ۔
قومی اسمبلی کے اپنے 125ممبران کو لٹکا کر رکھا ہوا ہے ۔ انہیں اسمبلی اٹینڈ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے اسلئے وہ ناراض ہوکر اسے چھوڑتے جارہے ہیں ۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے ممبران اس کی خلاف قانون اور آئینی حرکتوں سے نالاں ہیں دوتین افراد پارٹی سے مستعفی ہوچکے ہیں ۔ باقی کئی اور بھی جانے کیلئے پر تول رہے ہیں سندھ اور بلوچستان میں پارٹی ممبران میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ پنجاب میں سردار عثمان بزدار کی حکومت فیل ہونے کے بعد اب ق لیگ کے 
چوہدری پرویز الہٰی سے اتحاد کرکے انہیں چیف منسٹر بنایا ہے جس سے پارٹی کے ممبران ناراض ہیں اور انہوں نے اسے ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی سے کئی ممبران حزب اختلاف کے قائد حمزہ شہباز کے ساتھ مل چکے ہیں اسلئے پر ویز الہٰی کی حکومت ڈبکیاں کھار ہی ہے اسکی پارٹی کے بہت سے ممبران اسکے ملک وقوم ، مسلح افواج اور عدالتوں کے ججز کے خلاف خیالات سے نفرت کرتے ہیں اور چل چلاﺅ شروع ہے ۔ آخرمیں ان کا خود کاچیئر مین اور پارٹی کاقائم رہنا ہیں مشکل ہے کیونکہ ”فارن فنڈنگ کیس“۔”توشہ خانہ“ کیس اور ”عدالتوں کے ججز کے خلاف تو ہین عدالت “ کے کیس چل رہے ہیں جن کے بارے میں غیر جانب دار تجزیہ کار ۔ سینیئر وکلا اور ماہرین قانون سنگین نتائج کی خبریں دے رہے ہیں اگر ان کو سزا ہوگئی تو پارٹی تتر بتر ہوجائے گی اور عمران خان مرزا یار کی طرح اکیلے ہی اپنی بقیہ زندگی گزاریں گے۔

مزیدخبریں