پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی کا عفریت مُنہ پھاڑے کھڑا تھا کہ اوپر سے قیامت خیز طوفانی بارشوں اور سیلاب نے سب کچھ اُلٹ پُلٹ کے رکھ دیا۔ ہزاروں افراد لقمہ¿ اجل بن چکے اور لاکھوں مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہو چکے۔ ہزاروں مکانات تباہ ہوئے اور لگ بھگ چار کروڑ انسان بے گھر ہوئے۔ مرکزی اور سندھ حکومت کی بھرپور کوششوں اور کاوشوں کے باوجود اِس طوفانِ بلاخیز کا کوئی سرا ہاتھ آنے سے رہا۔ اِن تباہ کاریوں کا تخمینہ لگ بھگ چودہ ارب ڈالر لگایا گیا ہے ۔ اُدھر ہماری یہ حالت کہ آئی ایم ایف نے محض ایک ارب ڈالر کے لیے ناک سے لکیریں نکلوا دیں۔ پھر بھلا چودہ ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ ان حالات میں قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے جبکہ عمران نیازی ان تباہ کاریوں سے بے نیاز ہو کر کرسی کی تگ ودَو میں مگن ہے۔ یہ تو طے کہ کمزور ملکی معیشت اپنے جلو میں تباہی و بربادی لاتی اور اپنے پیچھے رنج والم کا لامتناہی سلسلہ چھوڑ جاتی ہے۔ تحقیق کہ پاکستان کو اسی بگڑتی صورتِ حال کا سامنا ہے جس کو سنبھالا دینا کم از کم پاکستان کے موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے بس کا روگ تو ہرگز نہیں۔ وزیرِ خزانہ کی انہی پالیسیوں کی بنا پر آج مسلم لیگ نواز کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے گر چکا ہے۔ ایسے میں اُس شخصیت کی ضرورت ہے جس کا نام اسحاق ڈار ہے اورنوازلیگ کے دَورِ حکومت میں جب وہ وزیرِخزانہ تھے تو اُنہوں نے ڈالر کی اونچی اُڑان کو دیکھتے ہوئے ڈالر 95 روپے تک لانے کا اعلان کر دیا۔ ڈار صاحب کے اِس اعلان پر لال حویلی کے مکین شیخ رشید نے چِڑ کر کہا کہ اگر وزیرِخزانہ ڈالر 95 روپے تک لے آئے تو وہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دے گا۔ اسحاق ڈار صاحب تو ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 95 روپے تک لے آئے لیکن شیخ رشید نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ نہ دیا کہ یہ ڈالر ریٹ میں مصنوعی کمی ہے۔ اُن دنوں میاں نوازشریف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ڈار صاحب تو ایکسچینج ریٹ 65 روپے تک لانا چاہتے تھے لیکن میں نے منع کر دیا کیونکہ اِس سے صنعتی سرمایہ کاروں کو نقصان کا اندیشہ تھا۔
یہ عین حقیقت کہ مفتاح اسماعیل نوازلیگ کے قائد میاں نوازشریف کی منظوری سے ہی وزیرِ خزانہ بنا تھا لیکن اُس وقت یہ طے ہوا تھا کہ مفتاح اسماعیل محترم اسحاق ڈار کی رَہنمائی میں کام کرے گا۔ ہوا مگر یہ کہ مفتاح اسماعیل نے الگ راہ اپنا کر مسلم لیگ کی مقبولیت کے گراف کو اتنا نیچے گرا دیا ہے کہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار صاحب تو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے فوراََ بعد عام انتخابات چاہتے تھے لیکن اتحادی جماعتوں نے اُنہیں قائل کر لیا کہ نیب قوانین اور الیکشن کمیشن کے قوانین میں مناسب تبدیلیوں کے بعد عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔ اُدھر اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ قرض کی اگلی قسط کے لیے آئی ایم ایف کو قائل کیا جائے کیونکہ قومی خزانہ خالی تھا۔ یہ سب کچھ تو ہو گیا لیکن عمران نیازی کی ساڑھے 3 سالہ بدترین کارکردگی کا سارا بوجھ نوازلیگ کے کندھوں پر آن پڑا جسے اپنے آپ کو ماہرِ معیشت قرار دینے والے مفتاح اسماعیل سنبھال نہ سکے۔
پاکستان کی انتہائی مخدوش معاشی صورتِ حال پر محترم اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی پروگرام میں کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ وزیرِ خزانہ ہوتے تو نہ تو روپے کی قدر کم ہونے دیتے اور نہ ہی اتنی مہنگائی کرتے ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ملک میں ایڈونچر نہ ہوتے تو آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ڈار صاحب کا یہ کہا بالکل درست کہ نوازلیگ کے 2013ءسے 2018ءتک کے دَورِ حکومت میں (جب وہ وزیرِ خزانہ تھے) عالمی سرویز کے مطابق پاکستان 2025ءتک دنیا کی 18 ویںبڑی معیشت بن جائے گا۔ تب اسحاق ڈار صاحب نے کہا تھا کہ 2025ءتو دور کی بات ہے ہم بہت پہلے پاکستان کی معیشت کو اِس مقام تک لے آئیں گے۔ پھر عالمی سازشیں بروئے کار آئیں کیونکہ پاکستان کے دشمنوں کو یہ ہر گز قبول نہیں تھا کہ عالمِ اسلام کی پہلی اور دنیا کی چھٹی عالمی قوت معاشی قوت بھی بن جائے۔ آج پاکستان معاشی قوت بننے سے دور ، بہت دور جا چکا۔اب اُن کا کیس سپریم کورٹ کے پاس ہے اور ڈار صاحب کو یقین ہے کہ فیصلہ اُن کے حق میں ہی آئے گا کیونکہ اِس کیس کی کوئی بنیاد ہے نہ گواہ۔ اسحاق ڈار صاحب کے تعلیمی کیریئر پر نگاہ دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے طالب علمی کے دَور میں بھی وہ ایک ہونہار طالب علم رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز لاہور سے کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ، ہیلی کالج آف کامرس اور پنجاب یونیورسٹی اُن کے مادرِ علمی رہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بی کام آنرز میں پہلی پوزیشن پر 2 گولڈ میڈل اور رول آف آنرز حاصل کیا۔ کیریئر کا آغاز 1970ءمیں بطور ٹرینی چارٹرڈ اکاو¿ٹنٹ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاو¿نٹنٹس اِن انگلینڈ اینڈ ویلز (ICAEW ) سے کیا اور 1974ءمیں اِس کے ایسوسی ایٹ ممبر بنے۔ اُنہوں نے 1980ءمیں ICAEW کی فیلو شپ اور 1984ءمیں ICAP کی فیلوشپ حاصل کی۔ اِس کے بعد وہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اکاو¿نٹنٹس آف پاکستان کے فیلو ممبر بنے۔اِس کے علاوہ وہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے 7 جون 2013ءکو وفاقی وزیرِ خزانہ کا حلف اُٹھایا۔ اُس وقت بھی پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں تھی۔ ایسی شخصیت کی صلاحیتوں سے مستفید نہ ہونا سوائے بدقسمتی کے اور کچھ نہیں۔
مہنگائی کا عفریت اور اسحاق ڈار
Sep 23, 2022