گھروں میں تعمیر کے لئے بانس، چٹائی، کیچڑ، دوبارہ قابلِ استعمال پلاسٹک کی بوتلوں اور ٹائرز وغیرہ کا استعمال ہو گا


کراچی (ا سٹاف رپورٹر)کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ویژول اسٹڈیز کے طلبہ نے مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے والے مکانات کا ماڈل پیش کردیا۔تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے طالب علموں نے مستقبل میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لیے گھروں کی تعمیر کا کم خرچ، پائیدار اور قابلِ حرکت گھروں کا نمونہ پیش کردیا۔گھروں میں تعمیر کے لئے بانس، چٹائی، کیچڑ، دوبارہ قابلِ استعمال پلاسٹک کی بوتلوں اور ٹائرز وغیرہ کا استعمال کیا جائے گا، جس میں ایک گھر کی تعمیراتی سامان کی لاگت 50ہزار سے ایک لاکھ روپے تک آئے گی اور رہن سہن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔گھروں کی خاص بات ہے یہ ہے اگر پانی کے بہاﺅ سے نقصان پہنچنے یا بہہ جانے کا اندیشہ ہو تو کم وزن ہونے کی وجہ سے انہیں با آسانی اسے کسی دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاسکے گا اور اپنا سامان بھی اس میں محفوظ کیا جا سکے گا، حالیہ سیلاب 10 فٹ تک آیا تھا گھروں کو مزید محفوظ بنانے کے لئے بیرونی دیواروں کو 15 فٹ اونچا رکھا جائے گا تا کہ پانی داخل نہ ہو سکے۔ہونہار طلبہ کی اس کاوش کو تعمیراتی شعبے نے قابلِ عمل قرار دیتے ہوئے جلد عملی جامہ پہنانے کا عندیہ دے دیا۔طلبہ نے بتایاکہ انہوں نے ملک میں ہونے والے سنگین موسمی حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہلکے وزن کے گھر تیار کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر اسے عملی جامع پہنایا۔شعبہ ویژول اسٹڈیز کے آرکیٹیکچر کے طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ گھر پانی کی سطح پر تیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ آئی ڈی پیز کی ماضی کی زندگی، ثقافت اور روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے ڈیزائن کیا گیا ہے۔گھر کا اسٹریکچر زیادہ تر بانس سے بنا ہوا ہے اور مختلف فریموں کو ایک ساتھ ملا کر دیواریں بنائی گئی ہیں جنہیں خاندان کی پسند کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور سیلابی صورتحال میں دیوار کو بنیاد اور چھت سے ہٹایا جا سکتا ہے جبکہ جان بچانے کے لیے انتہائی حالات میں اسے بیڑے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔گھر میں استعمال ہونے والا مواد متاثرہ کمیونٹیز کے لیے اجنبی نہیں ہے اور آسان تعمیراتی تکنیک کی وجہ سے ڈھانچے خود آئی ڈی پیز تعمیر کر سکتے ہیں۔ یہ ڈیزائن ڈھانچے کو 10-12 فٹ تک تیرنے کی اجازت دیتا ہے اس کی لاگت 50ہزار سے 80ہزار تک ہوگی۔
کراچی یونیورسٹی 

ای پیپر دی نیشن